Maktaba Wahhabi

336 - 534
کہاں سے پہنچی اور تم نے غلہ کو تر کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس تک بارش کا پانی پہنچ گیا تھا (جس کی وجہ سے غلہ کا کچھ حصہ تر ہو گیا ہے میں نے قصدًا تر نہیں کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تم نے غلہ کو اوپر کی جانب کیوں نہیں رکھا تا کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے اور کسی فریب میں مبتلا نہ ہوتے) یاد رکھو جو شخص فریب دے وہ مجھ سے نہیں (یعنی میرے طریقہ پر نہیں ہے) ‘‘۔[1] جہاں عیوب کو چھپانے سے شریعت نے منع فرمایا وہاں اپنے مسلمان بھائی سے خیر خواہی کرنے، نصیحت کرنے اور اچھا مشورہ دینے کا بھی حکم دیا ۔جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھوں گا زکٰوۃ ادا کروں گا اور ہر مسلمان کے حق میں خیر خواہی کروں گا‘‘[2] اس کے بعدسیدنا جریر کا طرز عمل یہ ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنی چیز کی کمزوریاں کھول کر رکھ دیتے ،پھر کہتے کہ اگر لینی ہے تو لے لو ورنہ چھوڑ دو ، ان سے کہا گیا کہ اگر تم نے اس طرح کیا تو تمہاری چیز فروخت ہی نہیں ہوگی ! فرمانے لگے " إنا بايعنا رسو ل اللّٰه على النصح لكل مسلم" ’’ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر مسلمان کے حق میں خیر خواہی کرنے کی بیعت کی ہے‘‘ ۔ [3] بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ شریعتِ اسلامیہ نے تو یہاں تک تعلیم دی کہ اگر فروخت کنندہ اور خریدار کے علاوہ کوئی تیسرا شخص بھی اس عیب کو دیکھ لے تو اس پر بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو اس سے آگاہ کرے ۔ یزید ابن ابی مالک فرماتے ہیں کہ:’’ ہمیں ابو سباع نے بیان کیا کہ میں نے واثلہ بن اسقع کے گھر سے ایک اونٹنی خریدی ، جب میں خرید کر جانے لگا تو دیکھا کہ واثلہ رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا گھسٹتے ہوئے آ رہے ہیں آتے ہی کہنے لگے : اے عبد اللہ ! کیا تم نے اونٹنی خریدی ہے ؟ میں نے کہا ہاں ، کہنے لگے کیا اس بیچنے والے نے اس میں جو عیب ہے تمہیں بتایا ہے ؟ میں نے کہا اس میں کون سا عیب ہے ؟ کہنے لگے کہ ہاں موٹی تازی ہے صحت مند ہے ! پھر فرمایا کیا تم اس پر سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہو یا ذبح کرنے کیلئے لی ہے ؟ میں نے کہا کہ : نہیں بلکہ میں نے حج کے ارادے سے لی ہے کہ اس پر سوار ہوکر حج کیلئے جاؤں گا ، کہنے لگے :
Flag Counter