Maktaba Wahhabi

314 - 534
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ:  یہاں تک تو بات ٹھیک ہے کہ ضمانت ایک معنوی چیز ہونے کے باوجود اسے فروخت کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انشورنس کمپنی واقعی ضمانت ہی فروخت کرتی ہے؟۔حقیقت یہ ہے کہ انشورنس کے معاہدہ میں کمپنی حادثہ سے امن کی ضمانت نہیں دیتی کہ صارف کی چیز کو حادثہ یا نقصان نہیں ہوگا ، بلکہ حادثہ کی صورت میں تلافی کی ضمانت دیتی ہے یعنی اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ اگر صارف کی انشورنس کردہ چیز کو نقصان ہوا تو کمپنی اس کے لئے مخصوص رقم ادا کرے گی، اور اگر نقصان نہ ہوا تو صارف خالی ہاتھ ہی رہے گا اور کمپنی اس کی ادا کردہ رقم اسے نہیں لوٹائے گی، لہذا اس میں پیسوں کا ہی تبادلہ ہے اور یہ صورت بالکل شرط (Bet) لگانے کی طرح ہے۔ شریعت کا اصول ہے کہ کوئی چیز فروخت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیچنے والے کی ملکیت ہو اور اس کے پاس موجود ہو، یا پھر اگر وہ چیز اس کی ملکیت میں نہ ہو تو بیچنے والا کم از کم اس کے حصول کی طاقت رکھتا ہو تا کہ اسے حاصل کر کے خریدار کے سپرد کر سکے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’جو چیز تمہارے پاس نہیں اسے مت بیچو‘‘۔[1] اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ انشورنس کمپنی پیسوں کے بدلے چیز کی ضمانت فروخت کرتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انشورنس کمپنی والے کیسے کسی چیز کی ضمانت فروخت کر سکتے ہیں جبکہ وہ اس ضمانت کے مالک ہی نہیں ہیں ، نہ ہی اس کے حصول کی استطاعت رکھتے ہیں نہ کوشش کرتے ہیں ؟، کسی چیز کے درست رہنے کی ضمانت تو اس چیز کو بنانے والی کمپنی ہی دیتی ہے ، یا پھر حکومت جو کہ معاشرہ میں امن قائم رکھنے کی ذمہ دار ہے وہ ہی ضمانت دے سکتی ہے ، انشورنس کمپنی والے تو اپنے دفتر میں بیٹھ کر رقوم کا لین دین کرتے ہیں ، وہ اپنی انشورنس کردہ کسی چیز کی حفاظت کا نہ تو انتظام کرتے ہیں نہ ہی معاشرہ میں قیام امن کے لئے کوئی جدو جہد؟؟ اگر ہم یہ بات بھی تسلیم کرلیں کہ انشورنس کمپنی اشیاء کی ضمانت ہی فرخت کرتی ہے اور وہ اس ضمانت کی
Flag Counter