Maktaba Wahhabi

312 - 534
ہیں جائز ہیں، لہٰذا شریعت کے اس قانون کے تحت انشورنس کا معاملہ بھی جائز ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت کا یقیناً یہی قاعدہ ہے کہ تجارتی معاملات میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں لیکن مکمل قاعدہ یہ ہے کہ وہ اس وقت تک مباح ہیں جب تک ان کی تحریم ثابت نہ ہوجائے، اگر شریعت کے کسی قاعدہ کے تحت وہ حرام ہوں تو انہیں حرام ہی کہا جائے گا، اور انشورنس کی حرمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سود پر مبنی ہے۔ (3) انشورنس کا نظام شریعت میں ’’عاقلہ‘‘ کے نظام کی طرح ہے۔ عاقلہ کا نظام یہ ہے کہ جب کسی شخص سے قتل خطا واقع ہوجائے ، یعنی غلطی سے کسی شخص کو قتل کر بیٹھے تو اس کی دیت اس پر واجب ہوجاتی ہے ، اگر وہ شخص تنہا اس دیت کو ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے والد کی طرف سے جو رشتہ دار ہیں جنہیں عربی میں عاقلہ کہا جاتا ہے جیسے دادا ، چاچا، بھائی وغیرہ وہ اس دیت کی ادائیگی میں اس کے شریک بنتے ہیں ۔ نظام عاقلہ کسی بھی جہت سے انشورنس سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ نظام عاقلہ قطعی طورپر تعاون پر مبنی نظام ہے جس میں کسی قسم کے عوض اور بدل کا مطالبہ نہیں کیا جاتا، جبکہ انشورنس کے نظام میں انشورنس کمپنی اگر صارف کے نقصان کو پور اکرتی ہے ، تو اس کے عوض کا بھی مطالبہ کرتی ہے اور بغیر عوض اور پیسہ کے کوئی کمپنی کسی شخص کا انشورنس نہیں کرتی ۔ (4)انشورنس کا معاملہ Provident Fund کی طرح ہے ، جس طرح ایک کمپنی اپنے ورکرز کی تنخواہوں میں سے ایک مخصوص حصہ نکال کر اس فنڈ میں جمع کرتی ہے اور ریٹائرمنٹ پر انہیں مزید پیسے شامل کر کے ادا کرتی ہے، اسی طرح انشورنس کمپنی اپنے صارف سے ماہانہ قسط لے کر جمع کرتی ہے اور حادثہ یا نقصان کے وقت اسے مزید پیسے شامل کر کے ادا کرتی ہے، اگر پرووڈنٹ فنڈ لینا جائز ہے تو انشورنس بھی حلال ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انشورنس اور Provident Fund میں کئی بنیادی فرق ہیں ، جیسے: پرووڈنٹ فنڈ کمپنی کی طرف سے اپنے ملازمین کے لئے ایک قسم کا تعاون ہے ، جو وہ اپنے ملازمین کی خدمات کے صلہ میں ادا کرتی ہے اور اس کے بدلہ کسی قسم کے عوض کا مطالبہ نہیں کرتی، لہذا اس میں کسی
Flag Counter