Maktaba Wahhabi

305 - 534
مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ؀} [النور: 55] ترجمہ: ’’ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم و پائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا وہ میری عبادت کریں گے (اور) میرے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بد کردار ہیں‘‘۔ عہد نبوت سے لے کر تقریباً نو سوسال تک عالمی تجارت پر اسلامی اصول تجارت کا رنگ غالب رہا ، اور چونکہ اسلامی معیشت کے قواعد وضوابط خالق کائنات کے مقرر کردہ تھے اس لئے وہ حقیقت پر مبنی معیشت تھی جس میں حیلہ بہانے نہیں تھے ، جس کی بنیادوں میں اخلاق اور ایک دوسرے سے تعاون کا جذبہ تھا نہ کہ لوٹ کھسوٹ اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی حرص،اسی لئے اس دور میں مصنوعی کساد بازاری ، بیروزگاری کا شائبہ تک نہ تھا، مال چند ہاتھوں کی زینت نہیں تھا، غریب اور مالدار میں زیادہ حد بندی نہیں تھی ، جان ومال کے تحفظ کی ضمانت نہیں دینی پڑتی تھی، لیکن مسلمانوں کی اسلامی تعلیمات سے دوری اور مغربیت پرستی نے عالمی تجارت سے اسلامی روح کو ختم کردیا اور پوری عالمی تجارت چند صیہونیت زدہ ذہنوں کے ہاتھوں یرغمال ہوگئی جنہوں نے پوری دنیا میں سود اور دھوکہ بازی کا بازار گرم کر کے امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنانے کی پوری کوشش کی اور سود کی صورت میں حاصل ہونے والے بے پناہ منافع کو اپنے اسلام مخالف مذموم مقاصد میں استعمال کیا۔اسی وجہ سے تجارتی میدان میں ایسے مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے جن کا ذکر قدیم فقہاء کی کتابوں میں نہیں ملتا ہے، انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ ’’انشورنس‘‘ یعنی بیمہ پالیسی کا بھی ہے۔ انشورنس کے معاملہ میں بنیادی تصور یہ کار فرماہے کہ ایک شخص کسی معاشرہ میں رہ کر تجارت کرنا چاہے ، کوئی کام کرنا چاہے لیکن اسے اپنی جان ومال کے تحفظ کے حوالہ سے خطرات لاحق ہوں یا تجارت میں خسارہ کا اندیشہ ہو تو کوئی دوسرا شخص آ کر اسے جان و مال کے تحفظ ، اور تجارت میں خسارہ نہ ہونے کی ضمانت
Flag Counter