Maktaba Wahhabi

284 - 534
(1) تجارتی قرضے (2) گھریلو قرضے تجارتی قرضوں کے ضمن میں وہ یہ حل پیش کرتے ہیں کہ اس سارے نظام کو شراکت کی بنیاد پر حل کیا جائے ۔ البتہ گھریلو قرضوں کے لئے بینکوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ ایسے قرضے قرضِ حسنہ کی صورت میں جاری کئے جائیں اور اگر بینک اس کے لئے آمادہ نہ ہو ں تو اس ضمن میں گولڈ اکاؤنٹ والا طریقہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جائزہ :فہیم خان کی یہ تجویز اپنی نوعیت کے اعتبار سے کوئی نئی تجویز نہیں ۔ اشاریہ بندی کے وسیع تر مفہوم کے قائلین اسے بھی اشاریہ بندی قرار دیتے ہیں ۔ البتہ اشاریہ بندی کو چند مخصوص طریقہ کا ر تک محدود سمجھنے والے اسے اشاریہ بندی سے ہٹ کر ایک علیحدہ تصور قرار دیتے ہیں ، اول الذکر صورت میں اس پر وہ تمام اعتراضات وارد ہوتے ہیں جو اشاریہ بندی پر ہوتے ہیں۔ مگر مؤخر الذکر نظریے کو اپنایا جائے تو اس ضمن میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ مودِع (Creditor) بینک میں نقد رقم جمع کراتا ہے اور واپسی کے وقت وہ سونے کو معیار بنا کر واپسی لیتا ہے ۔ یہاں گفتگو ایک مرتبہ پھر کاغذی کرنسی کی شرعی حیثیت کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔راجح رائے کے مطابق کاغذی کرنسی بذاتِ خود ثمن حقیقی ہے ۔ چنانچہ اس کی قیمت کا تعین سونے یا کسی دوسری شے کے حوالے سے کرنا کسی طور پر درست نہیں ۔ (2)شیخ محمود احمد کا پیش کردہ حل[1] شیخ محمود احمد نے اس ضمن میں متبادل قرض کی رائے پیش کی کہ اگر ایک شخص بینک سے ۱۰/ہزار روپے کی رقم قرض کےطور پر لیتا ہے تو بینک کو اس کے جواب میں ایک ہزار روپے قرض دے ۔ مدین Debtor(جو خود دائن Creditorبھی ہے)اور بینک (جو خود Debtorبھی ہے)دونوں مقررہ مدت تک اپنی اپنی رقوم سے کاروبارکریں اور پھر ایک دوسرے کو اصل زر واپس کردیں ۔اس دوران جو منافع کمائیں وہ دونوں کی ملکیت ہوگا۔اس بارے میں شیخ محمود احمد نے ایک خاکہ اسلامی نظریاتی کونسل کو
Flag Counter