Maktaba Wahhabi

280 - 534
(5) بچتوں کےحوالے سے اشاریہ بندی کا طریقہ اور زیادہ مضحکہ خیز تصور پیش کرتا ہے۔ تمام بچت کنندگان کی بچتوں(Consumer’s Basket)کے حوالے سے برتا جاتاہے اور اس طرح بزعم خویش نقصان کی تلافی کی جاتی ہے۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کتنے بچت کنندگان ایسے ہیں جو (Consumer’s Basket)خریدنے کے لئے بچت کرتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں! ایک ایسا شخص جو سونا خریدنے کےلئے بچت کررہا ہے، اس کی بچت کردہ رقم کی قوتِ خرید میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے کےلئے (Consumer’s Basket)کو میعار بنانا مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے ؟ ایسے شخص کے لئے تو منصفانہ قدم یہ ہے کہ (Consumer’s Basket) کے بجائے سونے کو معیار بنایاجائے ۔ علی ہذا القیاس ہر بچت کنندہ کے اپنے مقاصد ہیں ۔ ہر بچت کے پس منظر میں کارفرما مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اشاریہ بنانا یقیناً ناممکن ہے۔ سو اشاریہ بندی کا یہ نظام فائدہ مند نہیں ۔ (6) اس پر مستزاد یہ کہ قرض دینے کا عمل افراطِ زر کا باعث نہیں بنتابلکہ عام طور پر بچتوں کا عمل افراطِ زر کے پس منظر میں کارفرماہوتا ہے ۔ چنانچہ قرض دار سے اشاریہ بندی کی بنا پر زائد رقم لینا بذات خود ایک غیرمنصفانہ قدم ہے۔ (7)اشاریہ بندی کے حامی معیشت کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ جہاں افراطِ زرکے عمل کو ہمیشگی اور دوام حاصل رہے۔ جب کہ عقل کا تقاضہ ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے رکھا جائےیعنی تفریطِ زر کے دوران اشاریہ بندی کا کردار کیا ہوگا؟ اس پر تاحال خاموشی ہے۔ (8)افراطِ زر کے باعث نقدی کی جملہ خصوصیات متاثرہوتی ہیں مگر اشاریہ بندی ان میں سے صرف چند ایک کا علاج کرتی ہے اور باقی کو اسی طرح چھوڑ جاتی ہےمثلاً(Store of value)کا علاج تو اشاریہ بندی سے ممکن ہے مگر (Measure of value)کا مسئلہ جوں کا توں برقراررہتا ہے۔
Flag Counter