Maktaba Wahhabi

269 - 534
ان کی یہ حیثیت نہیں ہے۔ وہ ذریعہ جس کے مادہ اور صورت سے کوئی غرض وابستہ نہ ہو وہ جیسا بھی ہو اس سے مقصود حاصل ہوجاتاہے‘‘ ۔ چونکہ دلائل کے لحاظ سے یہ نقطہ نظر قوی ہے اور اس پر کئے گئے اعتراضات بھی زیادہ وزنی نہیں ، اس لئے دور حاضر کے علماء کی اکثریت وبیشترمفتیانِ کرام کے فتاوی اور اہم فقہی اداروں کی قرار دادیں اسی کے حق میں ہیں ۔ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع کی بھی یہی رائے ہے۔ [1] سعودی کبار علماء کی مجلس نے بھی اس کو ترجیح دی ہے۔[2] جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک بھی اسی قول کے حق میں ہیں ۔چنانچہ وہ مذکورہ بالا آرا ء اور ان کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’کاغذی زر کے متعلق علما کی آرا ء اور ہر ایک کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ لینے سے ہمیں ان کا قول راجح معلوم ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نوٹ مستقل کرنسی ہے اور سونے چاندی کی طرح ان میں بھی سود کے اَحکام جاری ہوتے ہیں ۔ ربا، سود اور تلف کی صورت میں ضمان کے مسائل میں ان پر مکمل طور پر سونے چاندی کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے‘‘۔[3] دیگر اقوال کی خرابیاں واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’دوسرے اقوال یا تو معاملات میں لوگوں کومشکل میں ڈال دیں گے یا لین دین کا دروازہ ہی بند کر دیں گے حالانکہ اس کے بغیر چارہ نہیں یا پھر سود کا دروازہ چوپٹ کھول دیں گے اور نقدین کی زکوٰۃ ضائع کرنے کے حیلوں کا دروازہ کھولیں گے‘‘۔[4]
Flag Counter