Maktaba Wahhabi

268 - 534
متعاقدین کو ان کی زری حیثیت کالعدم کرنے کااختیار ہے، کیونکہ یہ قانونی زر ہیں ۔ اس سلسلہ میں پانچویں اورآخری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے چاندی کی طرح مستقل زر ہے، کیونکہ نوٹوں میں زر کی تما م صفات پائی جاتی ہیں ۔ قیمتوں کا پیمانہ اور قابل ذخیرہ بھی ہیں اور لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں ۔ شرعی اعتبار سے یہی زر کی حقیقت ہے جیسا کہ ہم شروع میں امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کر آئے ہیں : ’’اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائیں تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو اُدھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا‘‘ ۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی چیز کو خواہ وہ چمڑا ہی کیوں نہ ہو بطور زر اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس کی تائید امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ’’مجموع الفتاوی‘‘ میں ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے: ’’أما الدرهم والدينار فما يعرف له حد طبعي ولا شرعي بل مرجعه إلی العادۃ والاصطلاح وذلک لأنه في الأصل لايتعلق المقصود به بل الغرض أن يکون معيارًا لما يتعاملون به والدراهم والدنانير لا تقصد لنفسها بل هي وسيلۃ إلی التعامل بها ولهٰذا کانت أثمانا بخلاف سائر الأموال فإن المقصود الانتفاع بها نفسها فلهٰذا کانت مقدرۃ بالأمور الطبعيـۃ أو الشرعيـۃ والوسيلـۃ المحضـۃ التـي لا يتعلـق بهــا غـرض لا بمادتها ولا بصورتها يحصل بها المقصود کيف ما کانت‘‘ [1] ’’اس کا خلاصہ یہ ہے کہ درہم و دینار کی کوئی ذاتی اور شرعی تعریف نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عرف اور اصطلاح سے ہے، کیونکہ درہم و دیناربذاتِ خود مقصود نہیں ہوتے بلکہ یہ باہمی لین دین کا ذریعہ ہیں ۔ اسی لئے یہ قیمت شمار ہوتے ہیں چونکہ باقی اَموال سے فائدہ اُٹھانا مقصود ہوتا ہے، اس لئے
Flag Counter