Maktaba Wahhabi

239 - 534
اب جو شخص قبل از وقت بیع کر رہا ہے کیا وہ بائع کو وہ ریٹ دیگا جو اس وقت مارکیٹ میں ہو گا یا وہ پیشگی رقم دینے میں اپنا فائدہ بھی دیکھے گا یقینا بائع کو جس وقت چیز تیار ہو کر مارکیٹ میں آئیگی اور اسکا جو ریٹ ہو گا وہ ریٹ سال بھر پہلے یا چھ ماہ قبل رقم لینے کی صورت میں اسے نہیں ملے گا تو جب یہاں مشتری کو فائدہ ہو رہا ہے ۔تو ادھار میں زیادہ قیمت کے سبب سے بائع کو فائدہ ہو رہا ہے اور تجارت اسی چیز کا نام ہے ۔لہٰذا دونوں ہی شرعا ًجائز و حلال ہیں ۔ رابعا :نقد وادھار بیع کے فرق کے جواز کو مؤطا امام مالک میں مذکوراس واقعہ کی روشنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔کہ: عن عبيد أبي صالح مولى السفاح أنه قال:" بعت بزاً لي من أهل دار نخلة إلى أجل، ثم أردت الخروج إلى الكوفة فعرضوا علي أن أضع عنهم بعض الثمن، وينقدوني فسألت عن ذلك زيد بن ثابت فقال: "لا آمرك أن تأكل هذا ولا تؤكله"[1] یعنی :عبید ابو صالح (تابعی )کہتے ہیں کہ میں نے کپڑا دار نخلہ (جو مکہ اور طائف کے درمیان مقام ہے )والوں کے ہاتھ بیچا ایک معین مدت کے وعدے پر جب میں کوفہ جانے لگا تو ان لوگوں نے کہا اگر تم کچھ کم رقم کردو تو تمہارا روپیہ ہم ابھی دے دیتے ہیں تو (ابو صالح )نے یہ مسئلہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے معلوم کیا ۔زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہیں اس روپئےکے کھانے اور کھلانے کی اجازت نہیں دیتا ۔(سود کا شائبہ ہونے کے سبب ) زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جو عبید ابو صالح کو جو مسئلہ بتاتے ہیں وہ بالکل واضح ہے ۔یعنی ایک ادھار رقم پر سودا طے ہونے کے بعد اب فوری نقد ادائیگی کی صورت میں کچھ رقم کی کمی کا مطالبہ تو رقم سے رقم کو خریدنا ہے اور اس میں سود کا شائبہ ہے ۔اس لئے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے کھانے اور کھلانے سے منع کیا۔
Flag Counter