Maktaba Wahhabi

180 - 187
مجھے اتنی رقم مل جائے یا میرا یہ کام ہوجائے تو میں اس قدر صدقہ کروں گا،یا اتنے نوافل پڑھوں گا،یا روزے رکھوں گا اس عہد کا پورا کرنا بھی واجب ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَ مِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ Oفَلَمَّآ اٰتٰھُمْ مِنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَتَوَلَّوْا وَّھُمْ مُّعْرِضُوْنَ ﴾ (التوبۃ: ۷۵،۷۶) ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ ہمیں اپنی مہربانی سے (مال و دولت) عطا کرے گا توہم ضرور صدقہ کریں گے،اور نیک بن جائیں گے،پھر جب اللہ نے اپنی مہربانی سے مال عطا کر دیا تو بخل کرنے لگے اور کمال بے اعتنائی سے (اپنے عہد سے ) پھر گئے۔ اس حوالے سے ثعلبہ بن حاطب کا واقعہ تفاسیر میں معروف ہے،(یاد رہے ثعلبہ بن ابی حا طب رضی اللہ عنہ معروف بدری صحابی ہیں،مگر یہ ثعلبہ بن حاطب ایک دوسرا شخص تھا جس کی تفصیل الاصابہ میں حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے بیان کردی ہے) جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھانے کے باوجود آپ سے مال و دولت کے حصول کی دعا کروائی کہ میں اس کا حق ادا کروں گا،آپ نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے بکریوں کی شکل میں وافر مال عطا فرمایا،مگر وہ اپنے عہد پر قائم نہ رہ سکا،اس پس منظر میں یہ آیت نازل ہوئی مگر اس کاحکم عام ہے اور قاری کودعوت فکر دے رہا ہے کہ اس نوعیت کا عہد و اقرار اور پھر اس کی خلاف ورزی جرم عظیم ہے اور کھلے نفاق کی علامت ہے۔جیسا کہ حدیث میں منافق کی علامات میں ایک علامت یہ بیان کی گئی ہے: کہ اِذا وعدأخْلف جب وہ وعدہ کرتا تو خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس سے اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ جو شخص کسی کام کی نذر مانتا ہے تو اس کو پوراکرنا ضروری ہے،بشرطیکہ کہ وہ اللہ کی رضا اور قربت کا باعث ہو،لیکن اگر اس کام میں معصیت کا پہلو ہو تو اسے قطعاً پورا نہیں کرنا چاہیے،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من نذر أن یطیع اللّٰہ فلیطعہ و من نذر أن یعصیہ فلا یعصہ۔ (بخاری مع الفتح: ص ۵۸۱ ج ۱۱)
Flag Counter