Maktaba Wahhabi

180 - 534
اس کا جواب یہ ہے کہ : اولاً: مروجہ اجارہ درحقیقت اجارہ نہیں بلکہ بیع ہے ، کیونکہ اس میں مؤجر(بینک) اور مستاجر(صارف) کا مقصد سامان کی منفعت نہیں ہوتا بلکہ تملیک اور تملک ہوتا ہے ، یعنی چیز بیچنا اور خریدنا مقصود ہوتا ہے ، لہٰذا مروجہ اجارہ میں بیع کا وعدہ ایک معاہدہ میں دو معاہدے کی قباحت کو شامل ہے۔ ثانیاً: مروجہ اجارہ میں اجارہ اور بیع کے جمع ہونے سے بیع میں غرر اور جہالت داخل ہوجاتی ہے ، چونکہ بیع آخری قسط کی ادائیگی کے ساتھ معلق ہوتی ہے ، اور بیع میں ضروری ہے کہ مبیع(سامان) کی کیفیت سے فروخت کنندہ اور خریدار دونوں مکمل آگاہ ہوں، لیکن مروجہ اجارہ میں بینک اور صارف دونوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ آخری قسط کی ادائیگی تک مبیع (سامان ) کی کیا کیفیت ہوگی ؟بینک صارف سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ اجارہ کی مدت کے اختتام پر یہ چیز اسے بیچ دے گا، اور دونوں کو ہی اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ مقررہ مدت تک چیز باقی بھی ہوگی یا نہیں ، اگر موجود ہوگی تو اس کی کیفیت کیسی ہوگی؟۔ جہاں تک ہدیہ کا تعلق ہے تو یہ ہدیہ اقساط پوری کرنے کے عوض دیا جارہاہے اور اگر ہدیہ کسی عوض کے بدلہ ہو تو اس کا حکم ہدیہ کا نہیں ہوتا بلکہ بیع کا حکم ہوتا ہے ، ایسے ہدیہ کو ہدیۃ الثواب کہتے ہیں ، شرح حدود ابن عرفہ میں ہے :’’ هبة الثواب.. عطية قصد بها عوض مالي.. وحكمها حكم البيع‘‘ ہدیہ ثواب ایسا عطیہ ہے جس میں مالی عوض کا حصول مراد ہو، اور ایسے ہدیہ پر بیع کا حکم لگتا ہے‘‘۔دلیل الطالب میں ہے : ’’فإن كانت بعوض معلوم فبيع‘‘ اگر ہدیہ کسی معلوم عوض کے بدلہ ہو تو وہ بیع ہے۔امام کاسانی  بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں:’’اگر وہ ہدیہ دیتے وقت عوض (بدلہ )کی شرط لگادے یعنی وہ یوں کہے کہ : ’’میں تمھیں یہ چیز تحفہ میں دیتا ہوں اس شرط پر کہ تم مجھے وہ کپڑا دو گے‘‘، تو ایسے معاہدہ کی نوعیت میں اختلاف ہے ، ہمارے تینوں اصحاب (امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، اور امام محمد ) یہی کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ہے تو ہدیہ کا لیکن اس کاحکم تجارت کا ہوگا‘‘[1]۔تو واضح ہوا کہ اس ہدیہ کا حکم بھی بیع کا ہی ہے کیونکہ بینک صارف کو یہ ہدیہ اقساط پوری کرنے کے عوض دیتا ہے ، اور چونکہ یہ بیع ہے لہٰذا اس کا وعدہ کرنا ، بیع کا وعدہ ہے اور وعدہ میں جب یکطرفہ یا دو طرفہ التزام ہو تو ایسا وعدہ معاہدہ میں بدل جاتا ہے ، لہٰذا مروجہ اجارہ
Flag Counter