جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اطاعت کرنی چاہیے،اور جس نے نا فرمانی کی نذر ما نی اسے نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔
اس طرح حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
اِنّما النذر ما یبتغی بہ وجہ اللّٰہ۔(مسند اِمام أحمد:ج۲ص۱۸۳،۲۱۱)
کہ نذر وہ ہے جس میں اللہ کی رضا مقصود ہو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا نذر فی معصیۃ الرب ولا قطیعۃ رحم ولا فیما لا یملک۔ (أبوداؤد :ج۳ص۲۴۳)
جس میں اللہ کی نافرمانی ہو،قطع رحمی ہواور جس کو پورا کرنے کی قدرت نہ ہواس میں نذر نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ آپ نے ابو اسرائیل رضی اللہ عنہ نامی ایک شخص کو دھوپ میں کھڑا ہوا دیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا: کہ یہ دھوپ میں کیوں کھڑا ہے تو آپ سے عرض کیا گیا: کہ اس نے نذر مانی ہے کہ میں روزہ رکھ کر دھوپ میں کھڑا ہوں گا،نہ بیٹھوں گا اور نہ کسی سے کلام کروں گا،آپ نے فرمایا: اسے کہو کہ کلام کرے،سایہ میں بیٹھ جائے،اور روزہ پورا کرے۔(بخاری :ج۲ص۹۹۱،ابوداؤد:ج۳ص۲۲۸)۔گویا روزہ رکھنا تو عبادت ہے مگر دھوپ میں کھڑا ہونا ‘ خاموش رہنا اور محض کھڑے رہنا کوئی عبادت نہیں،بعض حضرات ’’چپ شاہ‘‘ بنتے ہیں،کسی سے کلام نہیں کرتے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے ایک دن کی خاموشی سے بھی منع فرمایا:
لاصمات یوم اِلی اللیل۔(أبوداؤد: ج۳ص۷۴)
اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خاموش رہنا جاہلیت کا عمل ہے۔( بخاری مع الفتح :ج۱۱ص۵۹۰ ) بعض نے لکھا ہے کہ خاموشی کا روزہ مجوسیوں کا شیوا ہے،لہٰذا خاموش رہنا یا دھوپ میں کھڑے ہونا کوئی عبادت نہیں،نذر اس عمل کی ہونی چاہیے جو اللہ کی قربت کا باعث ہو۔
|