Maktaba Wahhabi

82 - 442
﴿وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا﴾ (الاعراف: ۱۸۰) ’’اور اللہ کے سب نام ہی اچھے ہیں، سو تم اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: ۷۴) ’’پس (لوگو!) اللہ کے بارے میں (غلط مثال) نہ بناؤ بلا شبہ (صحیح مثالوں کا طریقہ) اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ، ﴾ (البقرۃ: ۲۲) ’’پس کسی کو اللہ کا ہمسر نہ بناؤ اس حال میں کہ تم جانتے ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے ذاتی علو پر جس طرح نصوص کتاب وسنت اور اجماع سلف دلالت کرتے ہیں، اسی طرح عقل و فطرت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے۔ جہاں تک عقل کی دلالت کا تعلق ہے تو کہا جائے گا کہ بے شک علو صفت کمال ہے اور کمال کی ضد صفت نقص ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے لیے صفات کمال ہی ثابت ہیں، لہٰذا واجب ہے کہ ’’علو‘‘ کو بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت مانا جائے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے کسی چیز کو ثابت کرنے سے اللہ کی ذات میں نقص لازم نہیں آتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا صفت’’علو‘‘ سے متصف ہونااس بات کو متضمن نہیں کہ اس کی مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اگر کوئی ایسا گمان کرتا ہے تو اس کا اس قسم کا وہم، گمراہی اور بے عقلی ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے ذاتی علو پر فطرت کی دلالت کا تعلق ہے تو اس کا ثبوت یہ ہے کہ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کو پکارے، خواہ اس کی یہ پکار عبادت کے طور پر ہو یا دعا کے طور پر اس موقعہ سے اس کا دل اس پکار تے وقت آسمان کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور دعاء کرنے والا تقاضائے فطرت کے مطابق آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا لیتا ہے، جیسا کہ ہمدانی نے ابو المعالی الجوینی سے کہا تھا: ’’جب بھی کوئی عارف کہتا ہے: یا رب! تو وہ اپنے دل میں ضرورتاً طلب علو کو موجزن پاتا ہے۔‘‘ یہ سن کر امام جوینی نے اپنے سر پر طمانچا مارنا اور یہ کہنا شروع کر دیا: ’’ہمدانی نے مجھے حیران کر دیا، ہمدانی نے مجھے حیران کر دیا۔‘‘ ان کے بارے میں اسی طرح منقول ہے، خواہ صحیح ہو یا نہ ہو، بہرحال ہم میں سے ہر ایک محسوس اسی طرح کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: یارب! یارب!… الخ[1] پھر آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ نمازی جب نماز پڑھتا ہے، تو اس کا دل آسمان کی طرف ہوتا ہے خصوصاً حالت سجدہ میں جب وہ یہ کہتا ہے: ((سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی)) (سنن ابی داود، الصلاۃ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ، ح: ۸۷۱ وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، ح:۲۶۲ وسنن النسائی، الافتتاح باب تعوذ القاریء… ح:۱۰۰۹۔)
Flag Counter