Maktaba Wahhabi

123 - 442
چوتھا مرتبہ: شکر کا ہے، جو تمام مراتب سے اعلیٰ ترین مرتبہ ہے، یعنی انسان مصیبت کے پہنچنے پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ مصیبت اس کے گناہوں کا کفارہ اور اس کی نیکیوں میں اضافے کا موجب ہوگی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَا مِنٍْ مُصِیْبَۃٍ تُصِیْبُ الْمُسْلِمَ إِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا عَنْہُ حَتَّی الشَّوْکَۃِ یُشَاکُہَا۔)) (صحیح البخاری، المرض، باب ماجاء فی کفارۃ المرض… ح: ۵۶۴۰ وصحیح مسلم، البروالصلۃ، باب ثواب المومن فیما یصیبہ من مرض، ح:۲۵۷۲۔) ’’مسلمان کو جو مصیبت بھی پہنچتی ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے حتیٰ کہ اسے چبھنے والے کانٹے کو بھی اللہ تعالیٰ(اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے)۔‘‘ کوئی بیماری متعدی ہے نہ بدشگونی لینا جائز ہے سوال ۶۴: شیخ محترم! امید ہے آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وضاحت فرمائیں گے: ((لَا عَدْوَی، وَلَا طِیَرَۃَ، وَلَا ہَامَّۃَ، وَلَا صَفَرَ)) (صحیح البخاری، الطب، باب الجذام، ح:۵۷۰۷ وصحیح مسلم، السلام، باب لا عدوی ولا طیرۃ ولا ہامۃ، ح:۲۲۲۰۔) ’’نہ کوئی بیماری متعدی ہے، نہ کوئی بدشگونی ہے، نہ الو کا بولنا ہے اور نہ ماہ صفر کی تبدیلی میں کوئی بدشگونی ہے۔‘‘ اس حدیث میں کس قسم کی نفی کی گئی ہے؟ اس میں اور اس حدیث میں کس طرح تطبیق ہوگی: ((فِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ فِرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِ)) (صحیح البخاری، الطب، باب الجذام، ح: ۵۷۰۷ ومسند احمد: ۲/۴۴۳ واللفظ لہ۔) ’’جذام کے مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘ جواب :’’عدویٰ‘‘ مریض سے تندرست آدمی کی طرف مرض کے منتقل ہونے کو کہتے ہیں(مراد چھوت چھات ہے) یا جس طرح حسی امراض متعدی ہوتے ہیں اسی طرح روحانی اور اخلاقی بیماریاں بھی متعدی ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کریم نے فرمایا ہے کہ ’’برا ساتھی بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے کہ یا تو وہ تمہارے کپڑے جلا دے گا یا تم اس سے بدبو محسوس کرو گے۔‘‘[1] یہاں پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لفظ عدویٰ استعمال فرمایا ہے وہ حسی اور اخلاقی دونوں بیماریوں کو شامل ہے۔ طِیَرَہُ کے معنی کسی دیکھی جانے والی یا سنی جانے والی یا معلوم ہونے والی چیز سے بدشگونی پکڑنا ہے۔ ہَامّہ کے درج ذیل دو معنی بیان کیے گئے ہیں: ۱۔ اس سے مراد ایسی بیماری ہے جو مریض کو لاحق ہوتی ہے اور اس سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اس تفسیر کے مطابق اس کا عدوی پر عطف، عَطْفُ الْخَاصِ عَلَی الْعَامِ کے قبیل سے ہوگا۔ ۲۔ ہامّہ ایک مشہور پرندے (الو) کا نام ہے۔ عربوں کا گمان تھا کہ جب کسی شخص کا قتل ہو جاتاہے تو اس کا انتقام لینے تک یہ پرندہ اس
Flag Counter