Maktaba Wahhabi

250 - 442
علماء نے اس سے اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے کہ جب کوئی مسجد میں جمعہ کے دن اس وقت داخل ہو، جب مؤذن دوسری اذان دے رہا ہو تو وہ تحیۃ المسجد پڑھے کیونکہ اسے خطبہ سننا ہے۔ انہوں نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ خطبہ سننا واجب ہے اور مؤذن کی اذان کا جواب دینا واجب نہیں اور غیر واجب کی نسبت واجب کی حفاظت کرنا زیادہ بہتر ہے۔ مؤذن کی متابعت میں یہ کلمات کہے: (رَضِیْتُ بِاللّٰہِ ....)الخ،کب کہے جائیں سوال ۱۹۹: حدیث میں آیا ہے کہ انسان مؤذن کی متابعت میں یہ کلمات کہے: (رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلًا) سوال یہ ہے کہ یہ کلمات کس وقت کہے جائیں؟ جواب :حدیث سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ مؤذن جب یہ کہے: (اشْہَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ) اور آپ ان کلمات کا جواب دے دیں تو پھر یہ کہیں: (رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلًا) کیونکہ اس بارے میں حدیث نبوی ہے: ((مَنْ قَالَ حِیْنَ یَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ: اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلًا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا))( صحیح مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول الموذن… ح:۳۸۶ (۱۳)۔) ’’جو شخص مؤذن کو سنتے ہوئے یہ کہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں اللہ کے رب ہونے پر، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔‘‘ ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں: (مَنْ قَالَ وَاَنَا اَشْہَدُ) ’’جو کہے کہ میں یہ گواہی دیتا ہوں۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مؤذن کے (اشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ) کہنے کے بعد یہ الفاظ کہے جائیں کیونکہ واو حرف عطف ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ سامع کو مؤذن کے قول کے بعد یہ کلمات کہنے چاہئیں۔ اذان کے بعد کی دعا میں: (انَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ)کا اضافہ کرنا کیسا ہے ؟ سوال ۲۰۰: کیا اذان کے بعد کی دعا میں: (انَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ) کے الفاظ کا اضافہ صحیح ہے؟ جواب :اس اضافے کے بارے میں علماء حدیث میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ شاذ ہونے کی وجہ سے یہ الفاظ ثابت نہیں ہیں کیونکہ اس حدیث کے اکثر راویوں نے یہ کلمات روایت نہیں کیے ہیں جب کہ اس مقام کا تقاضا یہ تھا کہ ان کلمات کو حذف نہ کیا جاتا کیونکہ یہ مقام دعا اور ثنا کا ہے، لہٰذا اس طرح کے الفاظ کوحذف کرنا جائز نہیں کیونکہ انہیں بطور عبادت کہا جاتا ہے ۔ بعض علماء نے کہا ہ کہ ان کی سند صحی ہے ، یہ الفاظ بھی کہنے چاہییں اور یہ دیگر روایات کے منافی نہیں ہیں۔۔جن علماء نے ان کلمات کو صحیح قرار دیا ہے، ان میں شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے کیونکہ امام بیہقی نے
Flag Counter