Maktaba Wahhabi

182 - 442
ادیان افکار نہیں ہیں بلکہ یہ تو وحی الٰہی ہیں جسے اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں پر نازل فرمایا ہے تاکہ بندے اس کے مطابق زندگی بسر کریں اور یہ لفظ ’’فکر‘‘ جس سے مقصود دین ہوتا ہے، واجب ہے کہ اسے اسلامی لغت کی کتابوں سے حذف کر دیا جائے کیونکہ دراصل لفظ فکر کہہ کر اسی فاسد معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے اس ترکیب لفظی کے اعتبار سے گویا اسلام ایک فکر ہے۔ نصرانیت، جسے لوگ مسیحیت کے نام سے پہچانتے ہیں وہ بھی ایک فکر ہے اور یہودیت بھی ایک فکرہے گویاکہ شریعتیں محض زمینی افکار ہیں جنہیں لوگوں میں سے جو چاہیں آزادی کے ساتھ اختیار کر سکتے ہیں، حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ ادیان سماوی تو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین ہیں، لہٰذا انسان کو ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ یہ بلاشبہ وحی الٰہی سے عبارت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے نازل فرمایا ہے تاکہ ان کے مطابق اس کے بندے اس کی عبادت کریں، اس بنیادپرانہیں ’’فکر‘‘ نہیں کہنا درست نہیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں اپنی اصل یعنی اسلام پر قائم نہیں، لہٰذا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اسلام ہی سچا دین اور بنی نوع انسان کے لیے واجب الاتباع ہے) خلاصہ جواب یہ ہے کہ جو شخص بھی یہ عقیدہ رکھے کہ ہر شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ جو چاہے دین اختیار کرے اسے مکمل آزادی حاصل ہے، تو ایسا شخص اپنے اس عقیدہ کی بنیادپر کافر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ﴾ (آل عمران: ۸۵) ’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلٰمُ﴾ (آل عمران: ۸۶) ’’دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘ لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرنا بھی جائز ہے کیونکہ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے تو اہل علم کی صراحت کے مطابق وہ کافرکہلائے گا اور دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ کیا مفتی سے کہا جا سکتا ہے کہ ’’ اسلام کا اس بارے میں کیا حکم ہے ؟ ‘‘ سوال ۱۱۰: کیا یہ جائز ہے کہ انسان مفتی سے یہ کہے کہ اس بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ یا اس کے بارے میں اسلام کی کیا رائے ہے؟ جواب :یہ پیرایہ بیان اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ اس کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے یا اس کے بارے میں اسلام کی کیا رائے ہے؟ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ مفتی جواب دینے میں غلطی کربیٹھے، لہٰذا عین ممکن ہے کہ وہ جو جواب دے وہ اسلام کا حکم نہ ہو اور اگر حکم نص صریح ہو تو پھر کوئی حرج نہیں، مثلاً: اگر یہ کہا جائے کہ مردار کھانے کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مردار کھانے کے بارے میں اسلام کا یہ حکم ہے کہ وہ حرام ہے۔ ’’زمانے اور حالات نے چاہا‘‘ جیسے الفاظ کہنا جائز نہیں سوال ۱۱۱(شَائَ تِ الظُّرُوفُ اَنْ یَّحْصُلَ کَذَا) ’’حالات نے چاہا تو اس طرح ہوگیا‘‘ یا (شَائَ تِ الْاَقْدَارُ کَذَا وَ کَذَا)
Flag Counter