Maktaba Wahhabi

171 - 442
((اَللّٰہُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا)) (صحیح البخاری، الاستسقاء، باب سدوال الناس الامام اذا قحطوا، ح:۱۰۱۰۔) ’’اے اللہ! پہلے ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کروایا کرتے تھے (جب وہ زندہ ہم میں موجود تھے) تو تو ہمیں بارش سے نوازدیاکرتا تھا۔ اب (جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود نہیں ہیں) تیرے نبی کے چچا کو ہم (دعا کے لیے) بطور وسیلہ پیش کر کے دعا کر رہے ہیں، اب تو ہمیں بارش عطا فرما دے۔‘‘ اس کے بعد حضرت عباسbکھڑے ہوگئے اور انہوں نے دعا فرمائی۔ اگر میت سے دعا کا مطالبہ کرنا صحیح ہوتا اور یہ بنفسہ صحیح وسیلہ ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی آپ ہی سے دعا کا مطالبہ کرتے کیونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی قبولیت کی بہرحال زیادہ امید تھی۔ خلاصہ کلام یہ کہ کسی میت کی دعا کے وسیلے کو اللہ تعالیٰ کی طرف پیش کرنا ایک باطل وسیلہ ہے جو قطعاً حلال اور جائز نہیں۔ اس طرح غیر صحیح وسیلے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کوئی انسان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ (مرتبہ) کے وسیلے کو پیش کرے کیونکہ دعا کرنے والے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ مفید نہیں ہے۔ جاہ کا فائدہ تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو ہے لہٰذا دعا کرنے والے کو اس کا فائدہ نہیں مل سکتا کہ وہ جاہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلے کے طور پر پیش کرے اور یہ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے کہ توسل صحیح اور فائدہ مند وسیلہ اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت عظیم الشان جاہ (مرتبہ) حاصل ہے تو آپ کو اس سے کیا فائدہ؟ اگر آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صحیح وسیلہ پیش کرنا چاہتے ہیں تو یوں کہیں کہ اے اللہ! میں آپ پر اور آپ کے رسول پر ایمان کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں یا یوں کہیے کہ اے اللہ! مجھے آپ کے رسول سے جو محبت ہے، میں اس کے واسطہ سے تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں، تو اس طرح کا وسیلہ اختیار کرنا صحیح اور سودمند ہے۔ ولاء اور براء کاکیا مطلب ہے ؟ سوال ۹۳: ولاء اور براء سے کیا مراد ہے؟ جواب :براء اور ولاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ براء کے معنی یہ ہیں کہ انسان ہر اس چیز سے برائت کا اظہار کر دے جس سے اللہ تعالیٰ نے اظہار براء ت فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِّنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا﴾ (الممتحنۃ: ۴) ’’یقینا تمہارے لیے بہترین نمونہ ابراہیم علیہ السلام اور ان لوگوں میں ہے جو ان کے ساتھ تھے اس وقت جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا، بے شک ہم تم سے اور ان سے بری ہیں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ ہم تم سے منکر ہوئے، ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہوگیا ہے۔‘‘ یعنی یہاں پر مشرک قوم سے براء ت کا اظہار کیا گیا ہے جیسا کہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں واردہوا ہے:
Flag Counter