Maktaba Wahhabi

360 - 442
تالیف قلب کےلیے زکوٰۃ دینا کیسا ہے ؟ سوال ۳۸۳: کیا کسی کمزور ایمان والے شخص کے ایمان کو تقویت پہنچانے کے لیے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے، خواہ اس کو اپنی قوم کی سرداری نہ بھی حاصل ہو؟ جواب :اس مسئلے میں علماء میں اختلاف ہے لیکن میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ ایسے شخص کو اسلام سے الفت اور ایمان کی تقویت کے لیے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے، خواہ اسے ذاتی حیثیت سے دی جا رہی ہو اگرچہ وہ اپنی قوم کا سردار نہ بھی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مصارف زکوٰۃ کے ضمن میں ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ کا بھی ذکر فرمایا ہے لہٰذا اگر ہم فقیر کو اس کی بدنی وجسمانی حاجت کے لیے دیتے ہیں، تو ضعیف الایمان شخص کو ایمان کی تقویت کے لیے زکوٰۃ دینا جائز ہوگا کیونکہ انسان کے لیے جسمانی غذا کی نسبت ایمان کی تقویت کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ کیاطالب علم کوزکوٰۃ دی جا سکتی ہے ؟ سوال ۳۸۴: طالب علم کو زکوٰۃ دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :وہ طالب علم جس نے اپنے آپ کو شرعی علم کے حصول کے لیے مصروف کر رکھا ہو، اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے، خواہ وہ کمانے پر قادر بھی ہو کیونکہ شرعی علم کا حاصل کرنا جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے مصارف زکوٰۃ میں شمارفرماکراسے زکوۃ کا مستحق قراردیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہ ِوَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ، ﴾ (التوبۃ: ۶۰) ’’صدقات (یعنی زکوٰۃ وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب مقصود ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے) یہ حقوق اللہ کی طرف سے مقرر کر دئیے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ اگر کوئی طالب علم دنیوی علم کے حصول میں مشعول ہو تو اسے زکوٰۃ نہ دی جائے، اس سے ہم کہیں گے کہ اب تم دنیا کے لیے کام کر رہے ہو اور اس سے تم دنیا کمانے کے لیے ملازمت بھی حاصل کر لو گے، لہٰذا ہم تمہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ اگر ہم کوئی ایسا شخص دیکھیں جو کھانے پینے اور رہائش کے اخراجات کے لیے تو کمائی کر سکتا ہے اور اسے شادی کی بھی ضرورت ہو اور شادی کے اخراجات کے لیے اس کے پاس رقم مہیا نہ ہو تو سوال یہ ہے کہ کیا شادی کے لیے اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں اسے شادی کے لیے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ زکوٰۃ کی مد سے مہرادا کرنے کے لیے ساری رقم اسے دی جا سکتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ فقیر کو شادی کے لیے رقم دینا اور بہت زیادہ رقم دینا کس طرح جائز ہے؟ ہم کہیں گے اس لیے کہ بسا اوقات انسان کو شادی کی ضرورت بھی کھانے پینے کی طرح بہت شدید ہوتی ہے۔ اسی لیے اہل علم نے کہا ہے کہ جس پر کسی شخص کا نفقہ لازم ہو تو اسے اس کی شادی کے اخراجات بھی برداشت کرنے چاہئیں بشرطیکہ مالی
Flag Counter