Maktaba Wahhabi

362 - 442
بھی دی جا سکتی ہیں مزید یہ کہ جنگ کا ساز وسامان بھی اسے خرید کر دیا جا سکتا ہے۔ مسجدوں کی تعمیر فی سبیل اللہ میں داخل نہیں سوال ۳۸۶: کیا مسجدوں کی تعمیر میں زکوٰۃ صرف کرنا بھی ﴿وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ کی مد میں داخل ہو سکتا ہے؟ جواب :مسجدوں کو بنانا ﴿وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾مصارف زکوۃکے تحت نہیں آتا کیونکہ مفسرین نے فی سبیل اللہ کی تفسیر جہاد سے کی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ فی سبیل اللہ سے مراد نیکی کے تمام کام ہیں، تو﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَائِ﴾ میں حصر کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جیسا کہ یہ بات معروف ومشہور ہے کہ حصر کے معنی مذکور میں حکم کے اثبات اور اس کے ماسوا کی نفی ہوتی ہے۔ اس بنیادپر اگر ہم یہ کہیں کہ ﴿وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ سے نیکی کے تمام کام مراد ہیں، تو آیت کو ﴿اِنَّمَا﴾ کلمہ حصر سے شروع کرنے کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا۔ مسجدوں کے بنانے اور نیکی کے دیگر کاموں میں زکوٰۃ صرف کرنے کے جواز سے لوگوں کو نیکی کے کاموں سے روکنا لازم آتا ہے کیونکہ اکثر وبیشتر لوگوں پر بخل کا غلبہ ہوتا ہے اور اگر وہ یہ دیکھیں کہ مسجدوں کے بنانے اور دیگر کاموں میں زکوٰۃ صرف کرنا جائز ہے، تو وہ زکوٰۃ کو ان کاموں کی طرف منتقل کر دیں گے اور فقرا ء و مساکین ہمیشہ کے لیے محتاج رہیں گے۔ قریبی رشتہ داروں کوزکوٰۃ دینا کیساہے ؟ سوال ۳۸۷: قریبی رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اس بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ قریبی رشتہ دار، جس کا نفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب ہے، اسے زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی جو اس سے رفع نفقہ کا سبب بنے اور اگر قریبی رشتہ دار ایسا ہو، جس کا نان نفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب نہ ہو، مثلاً: بھائی جب کہ زکوٰۃ دینے والے کے اپنے بیٹے موجود ہوں، کیونکہ بھائی کے جب اپنے بیٹے موجود ہوں تو پھر بھائی کا نفقہ اس پر واجب نہیں ہے جیسا کہ بیٹوں کی موجودگی میں بھائی وارث نہیں بن سکتا تو اس صورت میں بھائی اگر مستحق ہو تو اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ اس طرح انسان کے اگر ایسے قریبی رشتہ دار ہوں، جو نفقے کے لیے تو زکوٰۃ کے محتاج نہ ہوں مگر ان کے ذمہ قرض ہو، تو ان کے قرضوں کو ادا کرنے کے لیے انہیں زکوٰۃ دینا جائز ہے، خواہ قریبی رشتہ دار باپ ہو یا بیٹا یا بیٹی یا ماں بشرطیکہ ان قرضوں کا سبب نفقے میں کوتاہی نہ ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کے بیٹے سے ایکسیڈنٹ ہوگیا اور جس گاڑی کو اس نے نقصان پہنچایا، اس کا اس پر تاوان آپڑا، اب اس کے پاس تاوان ادا کرنے کے لیے مال نہیں فراہم نہ تھا تو اس تاوان کو ادا کرنے کے لیے باپ زکوٰۃ کو استعمال کر سکتا ہے کیونکہ اس تاوان کا سبب نفقہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسے معاملے کی وجہ سے واجب ہوا ہے جس کا نفقے سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے کسی ایسے قریبی رشتہ دار کو زکوٰۃ دے دی جسے دینا اس کے لیے واجب نہ تھا تو اس صورت میں اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ صدقات و زکوٰۃ رمضان ہی کےساتھ خاص نہیں سوال ۳۸۸: کیا صدقات و زکوٰۃ رمضان ہی کے ساتھ مخصوص ہیں؟
Flag Counter