Maktaba Wahhabi

44 - 442
﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ﴾ (آل عمران: ۱۹) ’’دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔‘‘ اور معلوم ہے کہ دین اسلام، عقیدہ، ایمان اور احکام شریعت کے مجموعے کا نام ہے اور جب اکیلے ایمان کا ذکر ہو تو اس میں اسلام بھی داخل ہوتا ہے اور جب دونوں اکٹھے مذکور ہوں تو ایمان کا تعلق دلوں سے اور اسلام کا تعلق جسمانی اعضا سے ہوتا ہے، اسی لیے بعض سلف نے کہا ہے کہ ’’اسلام علانیہ ہے اور ایمان مخفی‘‘ کیونکہ ایمان دل میں جاگزیں ہوتاہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک منافق بظاہر نماز پڑھتا، صدقہ وخیرات کرتا اور روزے رکھتا ہے تو ایسا شخص ظاہر ی طور پر تو مسلمان ہے لیکن وہ مومن نہیں ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ہُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ، ﴾ (البقرۃ:۸) ’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے۔‘‘ ایمان کی ستر سےزیادہ شاخیں ہیں سوال: ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی اور بری تقدیر کے ساتھ ایمان لایا جائے اور ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اَ لْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شعبۃ الخ)) (جامع الترمذی، الایمان، باب ماجاء فی استکمال الایمان والزیادۃ والنقصان، ح: ۲۶۱۴ وسنن ابن ماجہ، المقدمۃ، باب فی ا لایمان، ح:۵۷) ’’ایمان کے ستر سے زیادہ دروازے ہیں۔‘‘ ان دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟‘‘ جواب: دراصل ایمان نام ہے عقیدہ کااس کے چھ اصول ہیں جو حدیث جبرئیل علیہ السلام میں مذکور ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ((اَ لْاِیْمَانُ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ، وَمَلَائِکَتِہِ، وَکُتُبِہِ، وَرُسُلِہِ، وَالْیَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ)) ( صحیح البخاری، الایمان، باب سوال جبرئیل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الایمان والاسلام والاحسان، ح: ۵۰ ومسلم، الایمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان… ح:۸) ’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاؤ اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔‘‘ اور وہ ایمان جو اعمال اور ان کے انواع واجناس پر مشتمل ہے، اس کی کم وبیش ستر یااس سے زیادہ شاخیں ہیں، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت کریمہ میں نماز کو ایمان کے نام سے موسوم فرمایا ہے: ﴿وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (البقرۃ:۱۴۳) ’’اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان (نماز) کو یوں ہی ضائع کر دے، اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحب رحمت ہے۔‘‘ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اس آیت کریمہ میں ایمان سے مراد بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کی جانے والی نماز ہے
Flag Counter