Maktaba Wahhabi

178 - 442
سربلندی، غلبہ اور قیادت دین اسلام کی طرف حقیقی طور پر رجوع کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے جس میں قول و فعل میں ہم آہنگی ہو اور ہمیں یہ حقیقت بھی اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ کفار جس بات پر عمل پیراہیں وہ باطل ہے، حق نہیں ہے اور پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ہمیں بتلادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں جو خوش حالی عطا فرمائی ہے، یہ آزمائش اور امتحان ہے اور ان کے حصے کی اچھی چیزیں انہیں دنیا ہی میں دے دی گئی ہیں حتیٰ کہ جب وہ مر کرجائیں گے اوردنیا میں حاصل شدہ ان خوش حالیوں کو چھوڑ جائیں گے تو ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جس کی وجہ سے اس کی حسرت اور غم وحزن میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ انہیں دنیا میں نعمتوں سے نواز دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ زلزلوں، قحط سالیوں، آندھیوں، طوفانوں اور سیلابوں وغیرہ سے محفوظ نہیں ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس سوال کرنے والے کو ہدایت و توفیق عطا فرمائے، حق کی طرف لوٹادے اور ہم سب کو دین کی بصیرت سے سرفراز فرمائے۔ انہ جواد کریم نیت صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ زبان سے جو چاہو کہو سوال ۹۹: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر دل میں خلوص ہو تو الفاظ کی صحت کی خاص اہمیت نہیں ہے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ جواب :صحت الفاظ سے مراد اگر ان کا عربی زبان کے مطابق استعمال ہے تو یہ بات صحیح ہے، سلامتی عقیدہ کے اعتبار سے اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہے، اگر معنی و مفہوم صحیح ہو اور الفاظ عربی زبان کے مطابق نہ بھی ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اگر تصحیح الفاظ سے مراد ایسے الفاظ کو ترک کرنا ہے جو کفر وشرک پر دلالت کرتے ہوں تو کہنے والے کی بات درست نہیں ہے۔ ایسے الفاظ کی تصحیح کی بہت اہمیت ہے، لہٰذا کسی طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ اگر نیت صحیح ہو تو زبان سے جو چاہو کہہ ڈالو(اجازت ہے) بلکہ کہنا یہ چاہیے کہ الفاظ بھی اسلامی شریعت کے مطابق ہوں تو بات بنتی ہے۔ ’’اَدَامَ اللّٰہُ اَیَّامَکَ‘‘ یا ’’اطَالَ اللّٰہُ بَقَائَ کَ‘‘کے الفاظ کہنے کا حکم سوال ۱۰۰: اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے: ’’اَدَامَ اللّٰہُ اَیَّامَکَ‘‘؟ جواب :یہ بات کہنا: ’’اَدَامَ اللّٰہُ اَیَّامَکَ‘‘ (اللہ تعالیٰ تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رکھے۔) اس دعا میں زیادتی ہے کیونکہ دنیا کی زندگی میں دوام اور ہمیشگی محال ہے یہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے منافی ہے: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ ، وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ، ﴾(الرحمن: ۲۶۔۲۷) ’’جو (مخلوق) زمین پر ہے، سب کو فنا ہونا ہے اور تمہارے پروردگار، جو صاحب جلال وعظمت ہے، کا چہرہ باقی رہے گا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاْئِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ﴾ (الانبیاء: ۳۴) ’’اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا۔ بھلا اگر تم مر جاؤ تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے؟‘‘ سوال ۱۰۱: یہ کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے: (اطَالَ اللّٰہُ بَقَائَ کَ) یا (طَالَ عُمْرُکَ) ’’اللہ تعالیٰ آپ کو طویل عمر عطا فرمائے۔‘‘؟
Flag Counter