Maktaba Wahhabi

101 - 442
کیا گیا۔ سیّدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح گھبرائے ہوئے تشریف لائے کہ چہرۂ اقدس سرخ ہو رہا تھا اور آپ فرما رہے تھے: ((لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰه وَیْلٌ لِّلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْیَوْمَ مِنْ رَدْمِ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ ہَذِہِ وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِہِ الْإِبْہَامِ وَالَّتِی تَلِیہَا)) (صحیح البخاری، الفتن، باب یاجوج وماجوج، ح:۷۱۳۵ وصحیح مسلم، الفتن، باب الفتن، وفتح ردم یاجوج وماجوج، ح:۲۸۸۰۔) ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، عربوں کے لیے اس شر کی وجہ سے خرابی ہے جو قریب آگیا ہے اور وہ یہ کہ یاجوج اور ماجوج کی دیوار میں سے آج اتنا حصہ کھل گیا ہے اور (یہ فرماتے ہوئے) آپ نے انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی کا دائرہ بنایا۔‘‘ تمام امتوں کو دجال سے کیوں ڈرایا گیا ؟ سوال ۴۹: تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنی قوموں کو دجال سے کیوں ڈرایا ہے، حالانکہ وہ تو آخری زمانے میں خروج کرے گا؟ جواب :آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت برپا ہونے تک روئے زمین پر سب سے بڑا فتنہ دجال کا فتنہ ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر ایک نبی نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے۔ کیونکہ یہ بہت بڑا ہولناک فتنہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ دجال آخری زمانے میں خروج کرے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوموں کو اس سے ڈرائیں تاکہ اس کا خطرہ اور ہولناکی کی واضح ہو جائے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنْ یَّخْرُجْ وَاَنَا فِیْکُمْ فَاَنَا حَجِیْجُہُ دُوْنَکُم۔ صلوات اللّٰه وسلامہ علیہ یعنی أکفیکم ایاہ۔ْ وَالاْ فَامْرُؤٌ حَجِیْجُ نَفْسِہِ وَاللّٰہُ خَلِیْفَتِیْ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ)) (صحیح مسلم، الفتن، باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ، ح: ۳۹۳۷۔) ’’اگر میری موجودگی میں وہ نکلا تو تمہاری بجائے میں خود اس سے نپٹ لوں گا اور اگر وہ میری عدم موجودگی میں نکلا تو پھر ہر آدمی اپنی طرف سے خود اس سے نپٹے گا اور ہر مسلمان پر اللہ تعالیٰ میری طرف سے نگہبان ہے۔‘‘ توہمارا رب کریم جل جلالہ کیا خوب قائم مقامی کرنے والانگہبان اور نگراں ہے۔ دجال کا فتنہ بہت بڑا فتنہ ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت برپا ہونے تک روئے زمین پر رونما ہونے والا یہ سب سے بڑا فتنہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے فتنوں میں یہی وہ فتنہ ہے جس سے خاص طور پر نماز میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی جاتی ہے، یعنی اس فتنے سے بچنے کے لیے نماز میں یہ دعا مانگی جانی چاہئے۔ ((أَعُوذ باللّٰه من عذاب جھنم،وَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، ومن فتنۃ المحیا والممات،ومن فتنۃ المسیح الدجال)) (صحیح البخاری، الاذان، باب التعوذ من عذاب القبر، ح:۱۳۷۷، وسنن ابی داود، الصلاۃ، باب مایقول بعد التشہد، ح:۹۸۴ وسنن ابن ماجہ الدعاء، باب ما تعوذ منہ رسول اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ح:۳۸۴۰ واللفظ لہ) ’’میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور پناہ لیتا ہوں قبر کے عذاب سے اور پناہ مانگتا ہوں حیات وممات کے فتنہ سے اور اللہ کی پناہ میں آتاہوں کانے دجال کے فتنے سے۔‘‘
Flag Counter