Maktaba Wahhabi

407 - 442
یہ آیت کریمہ توبہ کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ہر وہ گناہ جس سے بندہ توبہ کر لے، خواہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے۔ واللّٰہ الہادی الی سواء الصراط وسائل کے بعد فریضہ حج ادا کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے سوال ۴۵۰: ہم بعض مسلمانوں کو خصوصاً نوجوانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ فریضہ حج ادا کرنے میں سستی سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے ہم عنقریب ادا کر لیں گے اور پھر وہ بعض مشاغل کی وجہ سے معذور ہو جاتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کیا نصیحت فرمائیں گے؟ بعض والدین اپنے بیٹوں کو فریضہ حج ادا کرنے سے روکتے ہیں کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ انہیں سفر میں کوئی گزند نہ پہنچ جائے یا کہتے ہیں کہ وہ ابھی چھوٹے ہیں، حالانکہ ان پر حج کی ساری شرطیں لاگو ہوتی ہیں، تو ایسے والدین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس بارے میں بیٹوں کی اپنے والدین کی اطاعت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جزاکم اللّٰہ خیرا، ووفقکم لما فیہ خیر الدنیا والآخرۃ جواب :یہ امر معلوم ہے کہ حج اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن اور اس کی عظیم بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے، لہٰذا حج کے بغیر کسی شخص کا اسلام مکمل نہیں ہو سکتا بشرطیکہ اس کے حق میں وجوب کی شرطیں موجود ہوں اور جس کے حق میں وجوب کی شرطیں موجود ہوں اسے حج مؤخر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام فوراً بجا لانے چاہئیں، نیز کسی انسان کو معلوم نہیں کہ اسے کل کیا حالات پیش آئیں، ہو سکتا ہے کل وہ فقیر، بیمار یا فوت ہو جائے۔ والدین کے لیے بھی یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے بیٹوں کو حج پر جانے سے منع کریں، جبکہ ان کے حق میں وجوب کی شرطیں پوری ہوچکی ہوں اور دین واخلاق کے اعتبار سے انہیں قابل اعتماد رفقا کی معیت حاصل ہو۔ بیٹوں کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ ترک حج میں اپنے والدین کی اطاعت کریں، جبکہ حج واجب ہو کیونکہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں اِلاَّیہ کہ والدین کوئی شرعی عذر پیش کریں، تو اس صورت میں اس عذر کے زائل ہونے تک حج کو مؤخر کرنا جائز ہوگا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ سب کو خیر و خوبی کی توفیق عطا فرمائے۔ مقروض کے لیے حج واجب نہیں سوال ۴۵۱: کیا مقروض کے لیے حج لازم ہے؟ جواب :جب انسان پر اس قدر قرض ہو، جو اس کے سارے مال کے برابر ہو تو اس پر حج واجب نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حج اس آدمی پر فرض کیا ہے، جو استطاعت رکھتا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ (آل عمران: ۹۷) ’’اور لوگوں پر اللہ کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھے وہ اس کا حج کرے۔‘‘ اور جس شخص پر اس قدر قرض ہو کہ اسے ادا کرنے کے بعد اس کے پاس کچھ بھی نہ بچے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے حج کی استطاعت نہیں ہے۔ وہ پہلے اپنا قرض ادا کرے اور بعد میں جب اس کے لیے آسانی ہو تو حج کر لے۔ اگر قرض اس کے مال سے کم ہو، یعنی قرض ادا کرنے کے بعد بھی اس کے پاس مال بچ جائے تو قرض ادا کرنے کے بعد حج کر لے، حج خواہ فرض ہو یا نفل۔ اگر حج فرض ہو تو اس کے لیے واجب
Flag Counter