Maktaba Wahhabi

181 - 442
اس کتاب کی برکت سے بہت سی امتوں کو شرک سے نجات بخشی اور اس کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ ایک حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں، اس سے انسان کی کوشش اور وقت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ۲۔ طلب برکت کسی معلوم حسی امر کے ساتھ ہو، مثلاً: علم یعنی فلاں انسان کے علم اور اس کی دعوت خیر کے ذریعہ برکت حاصل کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ’’اے آل ابی بکر! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ہاتھوں ایسے امور خیر کو جاری فرما دیتا ہے جو دوسروں کے ہاتھوں جاری نہیں ہوتے۔ برکت کی کچھ موہوم اور باطل صورتیں بھی ہیں جیسا کہ دجال (اور جھوٹے) قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں میت، جسے وہ ولی سمجھتے ہیں، نے تم پر اپنی برکت نازل کی ہے، تو یہ باطل برکت ہے جس کا کوئی اثر نہیں۔ اس طرح کے کام میں شیطان کا اثر ہو سکتا ہے اور اس کے حسی آثار بھی ہو سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس شیخ کی طرف سے شیطان خدمت سر انجام دے سکتا ہے اور اس طرح یہ بہت بڑا فتنہ بن کر رونما ہو سکتا ہے۔ رہی اس بات کی پہچان کہ کیا یہ برکت باطل ہے یا صحیح، یہ اس شخص کے حال سے معلوم ہو سکتی ہے۔ اگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے اولیاء، متقی اور پرہیزگار، سنت کے متبع اور بدعت سے اجتناب کرنے والوں میں سے ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں سے ایسی خیر و برکت کو ظاہر کر سکتا ہے جو دوسروں کے ہاتھوں جاری نہیں ہو سکتی اور اگر وہ شخص کتاب وسنت کے مخالف ہو یا باطل کی طرف دعوت دیتا ہو تو اس کی برکت موہوم ہوگی اور اس باطل کام میں شیطان بھی اس کی مدد کر سکتا ہے۔ کسی بات کے لیے تقدیر کو کہاں تک بنیاد بنایا جا سکتا ہے ؟ سوال ۱۰۸: لوگوں کی طرف سے کی گئی اس طرح کی بات کے بارے میں کیا حکم ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’اس بات میں تقدیر نے مداخلت کی ہے‘‘ اور ’’اس میں اللہ تعالیٰ کی عنایت نے مداخلت کی ہے؟‘‘ جواب :یہ بات کہ ’’اس میں تقدیر نے مداخلت کی ہے‘‘ درست نہیں کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس معاملہ میں تقدیر نے مداخلت کر کے زیادتی کی ہے، حالانکہ تقدیر ہی تو اصل ہے، لہٰذا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ تقدیر نے مداخلت کی ہے؟ اس لئے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ قضا وقدر نازل ہوئی ہے یا یہ کہ تقدیر غالب آگئی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ ’’اللہ تعالیٰ کی عنایت نے مداخلت کی ہے۔‘‘ اس عبارت سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت حاصل ہوگئی ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت کا تقاضا یہ ہے۔ حریت فکر کا نظریہ کہاں تک درست ہے ؟ سوال ۱۰۹: ہم ’’حریت فکر‘‘ کے الفاظ سنتے اور پڑھتے ہیں درحقیقت یہ ’’حریت اعتقاد‘‘ کی طرف گویا کہ دعوت ہے، اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جواب :اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ جو شخص اس بات کو جائز سمجھتا ہے کہ انسان اعتقاد میں آزاد ہے وہ جو چاہے دین اختیار کرے تو ایسا شخص کافر ہے کیونکہ جو شخص بھی آزادی خیال کا عقیدہ رکھے کہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرنا بھی جائز ہے وہ اپنے اس عقیدہ کی وجہ سے اللہ عزوجل کے ساتھ کفر کرتا ہے، اس لئے اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ وہ توبہ کر لے تو درست ورنہ اسے قتل کرنا واجب ہوگا۔
Flag Counter