Maktaba Wahhabi

38 - 442
صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ ہم جلدی پہنچیں توایسا کریں۔ آپ کے حکم دینے کا یہ مقصد نہیں تھا کہ ہم نماز میں اس قدر تاخیر کر دیں کہ وقت ختم ہو جائے… اور انہی کا موقف درست تھا… لیکن اس کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میں سے کسی گروہ پر بھی سختی نہ فرمائی اور نہ ان دونوں گروہوں میں کوئی باہمی عداوت یا اس نص کے فہم میں اختلاف کی وجہ سے کوئی بغض پیدا ہوا، اس لیے میری رائے میں سنت نبوی سے انتساب رکھنے والے تمام مسلمانوں کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ ایک امت بن جائیں، ان میں فرقہ پرستی نہیں ہونی چاہیے بایں طور کہ کچھ لوگ ایک فرقے کی طرف نسبت اختیار کریں اور کچھ لوگ دوسرے اور تیسرے فرقے کی طرف اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے حتیٰ کہ زبانیں ایک دوسرے پر تیر برساناشروع کردیں۔ محض ایک اجتہادی اختلاف کی وجہ سے نوبت بغض اور عداوت تک پہنچ جائے۔ یہاں اس طرح کے کسی خاص گروہ کا نام لینے کی ضرورت نہیں، ہر عقل مند انسان اسے خود سمجھ لے گا اور اس کے سامنے معاملہ بالکل واضح ہو جائے گا۔ میری رائے میں اہل سنت والجماعت کے لیے واجب ہے کہ وہ متحد ہو جائیں، خواہ فہم نصوص کے اختلاف کی وجہ سے ان میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس معاملہ میں بحمدللہ کافی گنجائش ہے اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دلوں میں الفت ومحبت موجزن ہو اور آپس میں اتحاد واتفاق کا معاملہ روارکھا جائے۔ اس بات میں قطعاکوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں دشمنان اسلام کی خواہش اور تمنا ہے کہ مسلمان انتشار وخلفشار میں مبتلا ہو جائیں، کھلے دشمن بھی یہی چاہتے ہیں اور ان دشمنوں کی بھی یہی خواہش ہے جو بظاہر مسلمانوں یا اسلام کے ساتھ دوستی کا اظہار کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہ دوست نہیں ہیں، لہٰذا ہم پر یہ فریضہ عائدہوتا ہے کہ ہم بھی اپنے آپ کو اس صفت کے ساتھ متصف کریں جو فرقہ ناجیہ کی نمایاں اور ممتاز صفت ہے، یعنی ہم سب ایک کلمہ پر متحد ومتفق ہو جائیں۔ سیرت طیبہ کادامن مضبوطی سےتھامنا اعتدال سے اور اس سے تجاوز غلو ہے سوال: دین میں اعتدال سے کیا مراد ہے؟ جواب: دین میں اعتدال سے مراد یہ ہے کہ انسان کو نہ تو اس قدر غلو سے کام لینا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے بھی آگے بڑھ جائے اور نہ اس میں اس قدر کوتاہی ہونی چاہیے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں پامالی پر اتاروہوجائے۔ دین میں راہ اعتدال یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے دامن کو مضبوطی سے تھام لیا جائے، اور غلو یہ ہے کہ اس سے تجاوز کیا جائے اور کوتاہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت تک پہنچا ہی نہ جائے۔ اس کی مثال یہ ہے جیسے ایک شخص کہے کہ میں رات کے قیام کا ارادہ رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ساری زندگی نہ سوؤں کیونکہ نماز تمام عبادات سے افضل ہے، لہٰذا میری خواہش یہ ہے کہ میں ساری ساری رات بیدار رہاکروں تو یہ شخص اللہ تعالیٰ کے دین میں غلو بازی کرنے والا ہے اور ایسا شخص اپنے موقف کے اعتبارسے حق پر نہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہوبہو یہی واقعہ پیش آچکاہے کہ کچھ لوگ جمع ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ میں رات بھر قیام کروں گا اور کبھی نہیں سوؤں گا، دوسرے نے کہا میں ساری زندگی روزے رکھتا رہوں گا اور کبھی بھی روزہ نہیں چھوڑوں گا اور تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا:
Flag Counter