Maktaba Wahhabi

452 - 442
جواب :زوال سے پہلے اس کے لیے رمی کرنا جائز نہیں، البتہ اس حالت میں ضرورت کی وجہ سے اس سے رمی ساقط ہو جائے گی اور اس کے لیے فدیے کا ایک جانور منیٰ یا مکہ میں ذبح کرنا ہوگا یا وہ کسی کو جانور ذبح کرنے کے لیے اپنا وکیل مقرر کر دے، اس جانور کا گوشت فقرا میں تقسیم کر دیا جائے اور وہ طواف وداع کر کے چلا جائے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا کسی رائے کے مطابق زوال سے قبل رمی کرنا جائز ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ایک رائے کے مطابق قبل از زوال رمی جائز ہے لیکن یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ عید کے بعد کے دنوں میں قبل از زوال رمی کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((ٔخُذُوْا عنی مَنَاسِکَکُمْ))( صحیح البخاری، العلم، باب الفتیا وہو واقف علی الدابۃ وغیرہا، ح: ۸۳، وصحیح مسلم، الحج، باب استحباب رمی جمرۃ العقبۃ یوم النحر، ح: ۱۲۹۷، واللفظ لہ۔) ’’تم اپنے حج کے احکام مجھ سے سیکھو۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں میں زوال کے بعد ہی رمی فرمائی تھی۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زوال کے بعد رمی کرنا مجرد فعل ہے اور مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا تو ہم عرض کریں گے کہ یہ صحیح ہے کہ مجرد فعل ہے اور مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کا مجرد فعل ہونا اس لیے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد رمی کی تھی اور یہ حکم نہیں فرمایا تھا کہ رمی زوال کے بعد ہو، نیز زوال سے پہلے رمی سے آپ نے منع نہیں فرمایا تھا۔ مجرد فعل کا وجوب کی دلیل نہ ہونا اس لیے ہے کہ وجوب تو اس صورت میں ہوتا ہے کہ کسی فعل کا حکم دیا گیا ہو یا کسی فعل کے ترک سے منع کیا گیا ہو لیکن ہم یہ عرض کریں گے کہ یہاں قرینہ موجود ہے کہ یہ فعل وجوب کے لیے ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زوال تک رمی کو مؤخر کرنا اس کے وجوب کی دلیل ہے۔ اگر رمی قبل از زوال بھی جائز ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور قبل از زوال رمی فرماتے کیونکہ اس میں لوگوں کے لیے آسانی اور سہولت تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دو کاموں میں اختیار دے دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان کام کو اختیار فرمایا کرتے تھے۔ یہاں آپ نے اگر آسان کام یعنی رمی قبل از زوال کو اختیار نہیں فرمایا تو معلوم ہوا کہ یہ گناہ ہے۔ اس فعل کے وجوب کے لیے دوسری دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زوال کے فوراً بعد نماز ظہر سے پہلی رمی فرمایا کرتے تھے، گویا آپ شدت سے زوال کا انتظار فرماتے تاکہ جلدی سے رمی کر لیں، اسی وجہ سے نماز ظہر کو بھی مؤخر کر دیتے حالانکہ اسے اول وقت پر ادا کرنا افضل ہے۔ یہ سب کچھ زوال کے بعد رمی کرنے کے لیے ہواکرتا تھا۔ فَمَن تَعَجَّلَ فِی یَوْمَیْنِ کاصحیح مفہوم سوال ۵۳۳: جو شخص بارہویں دن یہ سمجھتے ہوئے رمی ترک کر دے کہ (قرآن میں) جلدی سے یہی مراد ہے اور پھر مکہ کو چھوڑ دے اور طواف و داع نہ کرے، تو اس کے حج کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اس کا حج صحیح ہے کیونکہ اس نے ارکان حج میں سے کسی رکن کو ترک نہیں کیا، البتہ اگر اس نے بارہویں رات منیٰ میں نہیں گزاری، تو اس طرح تین واجبات ترک کر دیے، جو حسب ذیل ہیں: (۱) بارہویں رات منیٰ میں بسر کرنا (۲) باہوریں دن رمی جمار کرنا (۳) طواف و داع۔ اس پر واجب ہے کہ ان میں سے ہر واجب کی طرف سے مکہ میں جانور ذبح کرے اور اسے فقرا میں تقسیم کر دے
Flag Counter