Maktaba Wahhabi

86 - 442
ہم نے جو یہ کہا کہ ’’جس طرح اس کے جلال وعظمت کے شایان شان ہے‘‘ تو اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح اس کی دیگر تمام صفات اس کی ذات پاک کے جلال وعظمت کے شایان شان ہیں، عرش پر اس کا استواء بھی اسی طرح ہے جس طرح اس کی ذات پاک کے لائق ہے۔ وہ مخلوقات کے استواء کی طرح نہیں ہے کیونکہ صفات اپنے موصوف کے تابع ہوتی ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات دیگر ذوات کی طرح نہیں ہے، بعینہٖ اس کی صفات بھی مخلوقات کی صفات کی طرح نہیں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ (الشوری: ۱۱) ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ اس جیسی کوئی چیز نہیں نہ ذات میں، نہ صفات میں۔ اسی وجہ سے امام مالک رحمہ اللہ سے جب استواء کی کیفیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’استواء غیر مجہول ہے، لیکن عقل اس کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے لیے یہی میزان ہے کہ وہ اس کے لیے اسی طرح ثابت ہیں جس طرح اس نے اپنی ذات پاک کے لیے ان کا اثبات فرمایا ہے اور کسی تحریف، تعطیل، تکییف یا تمثیل کے بغیر وہ اسی طرح ہیں جس طرح اس کی ذات پاک کے شایان شان ہیں۔ اس تفصیل سے ہماری اس بات کا فائدہ بھی معلوم ہو جاتا ہے جو ہم نے یہ کہی تھی کہ عرش پر استواء سے مراد ایک ایسا علو خاص ہے جو عرش ہی کے ساتھ مخصوص ہے، کیونکہ علو عام تو اللہ تعالیٰ کے لیے آسمان اور زمین کی تخلیق سے قبل، تخلیق کے وقت اور تخلیق کے بعد بھی ثابت ہے، اور وہ تو سمع و بصر اور قدرت و قوت جیسی ذاتی اور لازمی صفات کی طرح ہے لیکن ان کے برعکس استواء سے مراد علو خاص ہے۔ صرف مستقبل کے امور میں ان شاء اللہ کہا جا سکتا ہے سوال ۳۴: وہ کون سے امور ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ متعلق قرار دینا واجب ہے، اور وہ کون سے امور ہیں جنہیں مشیت الٰہی کے ساتھ متعلق قرار نہیں دینا چاہیے؟ جواب :ہر وہ چیز جو مستقبل میں پیش آنے والی ہے اس کے بارے میں افضل یہ ہے کہ اسے مشیت الٰہی کے ساتھ متعلق قرار دیا جائے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا، اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ﴾(الکہف: ۲۳۔۲۴) ’’اور آپ کسی شے کے متعلق نہ کہیں بے شک میں اسے کل کرنے والا ہوں، مگر یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘ البتہ گزری ہوئی چیز کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ متعلق کر کے نہ بیان کیا جائے الا یہ کہ مقصود اس کی علت کو بیان کرنا ہو، مثلاً: اگر کوئی شخص آپ سے یہ کہے کہ اس سال ماہ رمضان کا آعاز ان شاء اللہ اتوار کی رات سے ہوا تھا تو اس صورت میں ان شاء اللہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ بات تو گزر چکی اور معلوم ہو چکی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ ان شاء اللہ میں نے اپنے کپڑے پہن لیے ہیں اور وہ کپڑوں کو پہنے ہوئے ہو تو ایسی صورت میں جو کام ہو چکا ہے اور جس کو انجام دیا جاچکاہے اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ متعلق قرار دینا
Flag Counter