Maktaba Wahhabi

183 - 442
’’تقدیر نے چاہا تو اس طرح ہوگیا‘‘ اس طرح کے الفاظ کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اس طرح کے الفاظ منکر ہیں کیونکر ظروف، ظرف کی جمع ہے اور اس کے معنی زمانے کے ہیں اور زمانے کی اپنی کوئی مشیت نہیں ہوتی اور اقدار، قدر کی جمع ہے اور تقدیر کی بھی کوئی مشیت نہیں ہوتی۔ مشیت تو صرف اللہ عزوجل ہی کی ہے۔ ہاں! اگر انسان یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا یہ تقاضا ہوا، تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن یہ جائز نہیں کہ مشیت کی تقدیر کی طرف اضافت کی جائے کیونکہ مشیت کے معنی ارادہ کے ہیں اور ارادہ وصف کا نہیں بلکہ موصوف کا ہوتا ہے۔ کیا کسی شخص کو ’’شہید ‘‘کہنا جائز ہے؟ سوال ۱۱۲: کسی کو شہید کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :کسی کو شہید کہنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں: ۱۔ اسے وصف کے ساتھ مقید کیا جائے، مثلاً: یوں کہا جائے کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے رستے میں مارا جائے وہ شہید ہے،یا جو اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے،یا جو طاعون کے مرض سے فوت ہو جائے وہ شہید ہے، تو اس طرح کہنا جائز ہے جیسا کہ نصوص میں آیا ہے کیونکہ آپ تو اس بات کی شہادت دے رہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ ہمارے یہ کہنے کہ ’’یہ جائز ہے‘‘ کا مطلب یہ کہ ایسا کہنا ممنوع نہیں ہے حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے ایسی شہادت دینا تو واجب ہے۔ ۲۔ شہادت کو کسی معین شخص کے ساتھ مقید کیا جائے، مثلاً: آپ کسی معین شخص کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ شہید ہے تو یہ جائز نہیں، سوائے اس کے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شہادت دی ہو یا جس کی شہادت پر امت کا اتفاق ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کا عنوان اس طرح قائم کیا ہے: (باب لا یقال فلان شہید) ’’یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شہید ہے‘‘ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات کے تحت لکھا ہے، یعنی کسی معین شخص کے بارے میں قطعی طور پر یہ نہ کہا جائے الا یہ کہ وحی کے ذریعے سے ایسا معلوم ہوجائے۔ انہوں نے گویا اپنے اس قول سے حدیث عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھاکہ تم اپنے غزوات میں کہتے ہو کہ فلاں شہید ہے، فلاں شہادت کی موت مرا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ سواری سے گر کر مرا ہو، لہٰذا تم اس طرح نہ کہا کرو بلکہ یہ کہا کرو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں فوت ہو یا قتل ہو وہ شہید ہے۔‘‘ یہ حدیث حسن ہے۔ امام احمد اور سعید بن منصور وغیرہ نے بطریق محمد بن سیرین اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔[1] کسی چیز کی شہادت اس کے بارے میں علم ہی کی بنیاد پر ہو سکتی ہے اور کسی انسان کے شہید ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس نے اس لیے لڑائی لڑی ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کو سربلندی حاصل ہواجائے دراصل اس کا تعلق باطنی نیت سے ہے جسے معلوم کرنے کی کوئی کسوٹی نہیں۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: ((مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَنْ یُجَاہِدُ فِی سَبِیْلِہِ)) (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب افضل الناس مومن مجاہد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللّٰه ، ح:۲۷۸۷۔)
Flag Counter