Maktaba Wahhabi

356 - 442
ہے جو آدمیوں کے کھانے کے کام آتی ہو جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ((کُنَّا نُخْرِجھاُ علی عَہْدِ النبی ِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍٍ وَکَانَ طَعَامَنَا التمرو الشَّعِیرُ وَالزَّبِیبُ وَالْأَقِطُ )) (صحیح البخاری، الزکاۃ، باب الصدقۃ قبل العبد، ح: ۱۵۱۰۔) ’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کھانے کی اشیاء میں ایک صاع بطور صدقہ فطر ادا کیا کرتے تھے۔ اس وقت ہمارا کھانا کھجورجو، کشمکش، اورپنیر تھا۔‘‘ راوی نے یہاں گندم کا ذکر نہیں کیا اور مجھے نہیں معلوم کہ کسی صحیح صریح حدیث میں صدقہ فطر کے ضمن میں گندم کا بھی ذکر آیا ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ صدقہ فطر میں گندم دینا بھی جائز ہے، پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے: ((فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُہْرَۃً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْنِ)) (سنن ابن ماجہ، الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ح: ۱۸۳۷ وسنن ابی داود، الزکاۃ، باب زکاۃ الفطر، ح: ۱۶۰۹۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا ہے جو روزہ دار کو بے ہودہ باتوں اور فحش کاموں سے پاک کر دیتا ہے اور مسکینوں کے لیے کھانا ہے۔‘‘ لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ جو بھی آدمیوں کا کھانا ہو، اسے بطور صدقہ فطر ادا کرنا جائز ہے، خواہ وہ ان پانچ اجناس سے نہ بھی ہو، جن کو فقہاء نے بیان کیا ہے، کیونکہ یہ اجناس جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے، ان میں سے صرف چار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لوگوں کے کھانے کے طور پر استعمال ہوتی تھیں، لہٰذا چاول کو بطور صدقہ فطر ادا کرنا جائز ہے بلکہ میری رائے میں عہد حاضر میں چاول کو بطور صدقہ فطر دینا افضل ہے کیونکہ یہ کم خرچ کھانا ہے اورلوگوں کے ہاں زیادہ پسندیدہ ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حالات مختلف ہو سکتے ہیں، کچھ بادیہ نشین لوگوں کے ہاں کھجور زیادہ پسندیدہ ہو سکتی ہے، اس صورت میں انسان انہیں کھجور دے اور دوسری جگہ کچھ لوگوں کے ہاں کشمش زیادہ پسندیدہ ہو سکتی ہے، وہاں پر انہیں کشمش دی جائے، اسی طرح پنیر اور دیگر چیزوں کی بابت کیا جا سکتا ہے۔ پس ہر قوم کے نزدیک افضل چیز وہ ہوگی، جو ان کے لیے زیادہ منفعت بخش ہو۔ کیا فوت شدہ انسان کے مال پر زکوٰۃ ہے ؟ سوال ۳۷۵: ایک شخص کے پاس ایک تہائی مال کسی فوت شدہ انسان کا ہے اور کچھ درہم یتیموں کے ہیں، تو کیا ان میں زکوٰۃ ہے؟ جواب :وہ ایک تہائی حصہ جو کسی فوت شدہ کا ہے، اس میں زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ اس کا کوئی مالک نہیں بلکہ وہ تو نیکی کے کاموں کے لیے وقف ہے، البتہ جو یتیموں کے درہم ہیں، ان میں زکوٰۃ واجب ہے۔ یتیموں کا ولی ان کی طرف سے زکوٰۃ ادا کرے گا کیونکہ اہل علم کے مختلف اقوال میں سے صحیح قول یہ ہے کہ زکوٰۃ میں بلوغت اور عقل شرط نہیں ہے کیونکہ زکوٰۃ تو مال میں واجب ہوتی ہے۔
Flag Counter