Maktaba Wahhabi

88 - 442
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اس بات کا ارادہ رکھتا ہے کہ بندے گناہ کریں‘‘ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا کونی ارادہ تو ہے، مگر شرعی ارادہ نہیں کیونکہ شرعی ارادہ محبت اور پسندیدگی کے معنی میں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ بندے گناہوں کا ارتکاب کریں لیکن اللہ تعالیٰ کے کونی ارادہ کا ان سے تعلق ضرور ہے کیونکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ ہے۔ اسمائے الہٰی میں کجی اختیار کرنے کے نتائج سوال ۳۶: اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد (اورکجی اختیار کرنے) کے کیا معنی ہیں اور اس کی کتنی قسمیں ہیں؟ جواب :الحاد کے لغوی معنی تو میلان اور جھکاؤ کے ہیں، اسی معنی میں ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّ ہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ﴾ (النحل: ۱۰۳) ’’جس کی طرف یہ (تعلیم کی غلط) نسبت کرتے ہیں، اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔‘‘ قبر کی لحد بھی اسی سے مشتق ہے اور اسے لحد اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک طرف کو جھکی اور مائل ہوتی ہے۔ الحاد کی معرفت استقامت کی معرفت کے بغیر نہیں ہو سکتی کیونکہ مثل مشہور ہے: ’’اشیاء کی معرفت ان کے اضداد سے ہوتی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں استقامت یہ ہے کہ ہم کسی تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے بغیر اللہ کے اسماء وصفات پرایمان رکھیں ہمارا ان کی اس کنہ اور حقیقت پر ایمان ہو جو اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے لائق ہے اور اس مسئلہ میں اہل سنت والجماعت کا یہی قاعدہ ہے اور اب جب ہمیں اس بات میں استقامت کا علم ہوگیا تو یہ بھی از خود معلوم ہوگیا کہ اس بات میں الحاد سے کیا مراد ہے۔ اہل علم نے اللہ تعالیٰ کے اسماء میں الحاد کی کئی قسمیں ذکر کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اسماء وصفات کے بارے میں جو اعتقاد رکھنا واجب ہے اس سے گریز اختیار کرنا الحاد ہے اور اس کی کئی قسمیں ہیں، جو حسب ذیل ہیں: پہلی قسم: اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں سے کسی کا انکار کرنا، مثلاً: جس طرح کوئی اسم ’’رحمن‘‘ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا نام ہونے سے انکار کر دے جیسا کہ اہل جاہلیت نے اس کا انکار کر دیا تھا، یا کوئی اسماء کو تو مانے مگر یہ اسماء جن صفات کو متضمن ہیں ان کا انکار کر ے جیسے بعض اہل بدعت نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’رحیم‘‘ تو ہے مگر ’’رحمت‘‘ کے بغیر اور وہ ’’سمیع‘‘ تو ہے مگر ’’سمع‘‘ کے بغیر۔ دوسری قسم: اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا نام رکھا جائے جس نام سے اس نے اپنے آپ کو موسوم نہیں کیا ہے۔ اس کی اس کجروی کے الحاد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے تمام اسماء توقیفی ہیں، لہٰذا کسی کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا نام رکھے جس سے اس نے خود اپنی ذات پاک کو موسوم قرار نہیں دیا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف علم کے بغیر بات منسوب کرنے کی سازش شمارہوگی۔ اس لئے اس کو اللہ تعالیٰ کے حق میں زیادتی سے موسوم کیا جائے گا جیسا کہ فلاسفہ نے ’’الٰہ‘‘ کو علت فاعلہ کے نام سے موسوم قرار دیا ہے اور جس طرح کہ عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کو ’’اب‘‘ (باپ) کے نام سے موسوم کیا ہے۔ تیسری قسم: یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ اسماء مخلوق کی صفات پر دلالت کرتے ہیں، پھر وہ ان کی دلالت کو بطور تمثیل پیش کرے۔ اس کے الحادہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اسماء مخلوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تمثیل پر دلالت
Flag Counter