Maktaba Wahhabi

342 - 442
((لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ، وَالْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْہَا الْمَسَاجِدَ، وَالسُّرُجَ)) (سنن ابی داود، الجنائز، باب فی زیارۃ النساء القبور، ح: ۳۲۳۶، وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ماجاء فی کراہیۃ ان یتخذ علی القبر مسجدا، ح: ۳۲۰ وسنن النسائی، الجنائز، باب فی اتخاذ السرج علی القبور، ح: ۲۰۴۵، وسنن ابن ماجہ، الجنائز، باب ماجاء فی النہی عن زیارۃ النساء القبور، ح: ۱۵۸۵۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے۔‘‘ عورت کے لیے قبرستان جانا حلال نہیں ہے بشرطیکہ وہ زیارت کے قصد سے گھر سے نکلے اور اگر وہ زیارت کے قصد کے بغیر قبرستان کے پاس سے گزر رہی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ قبرستان کے پاس کھڑی ہو جائے اور اہل قبور کو اس طرح سلام کہے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سکھایا ہے۔ بہرحال قصد زیارت سے گھر سے نکلنے والی عورت اور بلا قصد و ارادہ قبروں کے پاس سے گزرنے والی عورت میں فرق کیا جائے گا کہ جو عورت قبرستان جانے کے قصد وارادہ سے گھر سے نکلے اس نے حرام فعل کا ارتکاب کیا اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق قرار دے لیا[1] اور دوسری وہ عورت جو اتفاق سے قبرستان کے پاس سے گزر رہی ہو اس کے لئے قبروں کے پاس سے گزرنے اور سلام کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ میت کے گھر قرآن خوانی کرناکیساہے ؟ سوال ۳۵۳: بعض ملکوں میں رواج ہے کہ جب کوئی انسان فوت ہو جاتاہے تو اس کے گھر میں بلند آواز سے قرآنی خوانی کی جاتی ہے یا گھر میں ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے سے تلاوت کی کیسٹیں سنائی جاتی ہیں، اس عمل کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :یہ عمل بلا شک بدعت ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں اس کا رواج نہ تھا۔ قرآن کریم سے یقینا غم و فکر دور ہوتے ہیں جب انسان خود پڑھے نہ کہ لاؤڈ سپیکروں سے بلند آواز سے پڑھا جائے جسے ہرایک حتیٰ کہ لہو ولعب میں مبتلا اور آلات موسیقی سے دل بہلانے والے بھی سنیں، وہ گویا کہ بیک وقت قرآن بھی سن رہے ہوتے ہیں اور موسیقی بھی۔ اس طرح گویاکہ یہ لوگ قرآن مجید کے ساتھ بیہودگی کا معاملہ کرتے ہیں اور اس کا استہزاء ومذاق اڑاتے ہیں اسی طرح میت کے گھر میں تعزیت کے لیے آنے والوں کے لیے جمع ہونا بھی ان ہی امور میں سے ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جس کا نام ونشان تک نہ تھا حتیٰ کہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ عمل بدعت ہے، اس بنیادپرہماری رائے میں اہل میت کو تعزیت کے لیے آنے والوں کے استقبال کے لیے جمع نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں اپنے دروازے بند کر لینے چاہئیں، البتہ اگر کوئی بازار میں ملے یا جاننے والوں میں سے کوئی اس ملاقات کے اہتمام کے بغیر آجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ہر آنے جانے والے
Flag Counter