Maktaba Wahhabi

126 - 442
’’پہلے اونٹ کو خارش کس نے لگائی تھی؟‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر: (فَمَنْ اَعْدَی الْاَوَّلَ) ’’پہلے اونٹ کوخارش کس نے لگائی تھی؟‘‘ اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مریض اونٹوں سے تندرست اونٹوں کی طرف مرض اللہ کی تدبیر کے ساتھ منتقل ہوا ہے۔ پہلے اونٹ پر بیماری متعدی صورت کے بغیر اللہ عزوجل کی طرف سے نازل ہوئی تھی ایک چیز کا کبھی کوئی سبب معلوم ہوتا ہے اور کبھی سبب معلوم نہیں ہوتا جیسا کہ پہلے اونٹ کی خارش کا سوائے تقدیر الٰہی کے اور کوئی سبب معلوم نہیں ہے، جب کہ اس کے بعد والے اونٹ کی خارش کا سبب معلوم ہے اب اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس (دوسرے اونٹ) کو خارش لاحق نہ ہوتی۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ اونٹوں کو خارش لاحق ہوتی ہے اور پھر وہ ختم بھی ہوجاتی ہے اور اس سے اونٹ مرتے نہیں۔ اسی طرح طاعون اور ہیضے جیسے بعض متعدی امراض ہیں جو ایک گھر میں داخل ہو جاتے ہیں، بعض کو تو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور وہ فوت ہو جاتے ہیں اور بعض دیگر افراد ان سے محفوظ رہتے ہیں، انہیں کچھ نہیں ہوتا، چنانچہ انسان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسا رکھنا چاہیے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مجذوم شخص حاضر ہوا، آپ نے اس کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا: ’’کھاؤ۔‘‘ [1] یعنی اس کھانے کو کھاؤ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تناول فرما رہے تھے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر توکل بہت قوی تھا اور یہ توکل متعدی سبب کا مقابلہ کرنے کے لئے انٹی بائٹک کا کرتا تھا۔ ان احادیث میں تطبیق کی سب سے بہتر صورت یہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ بعض نے اس سلسلہ میں نسخ کا بھی دعویٰ کیا ہے، لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے، کیونکہ نسخ کی شرائط میں سے ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ دونوں میں تطبیق مشکل ہو اور اگر تطبیق ممکن ہو تو پھر تطبیق دینا واجب ہے، اگر حقیقت میں دیکھا جائے اس طرح دونوں دلیلوں کے مطابق عمل ہو جاتا ہے جب کہ نسخ کی صورت میں ایک دلیل کا باطل ہونا لازم آتا ہے اور دونوں کے مطابق عمل ہو جانا ایک کو باطل قرار دینے سے زیادہ بہتر ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے دونوں دلیلوں کو قابل اعتبار اور لائق حجت قرار دیا ہے۔ واللّٰہ الموفق نظر کی حقیقت اور اس کا علاج سوال ۶۵: کیا انسان کو نظر لگ جاتی ہے اس کا علاج کیا ہے؟ کیا نظر سے بچنا توکل کے منافی ہے؟ جواب :نظر لگنا برحق ہے اور یہ شرعی اور حسی طور پر ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِہِمْ﴾ (القلم: ۵۱) ’’اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((اَلْعَیْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَیْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتْ الْعَیْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا)) (صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۸۔)
Flag Counter