Maktaba Wahhabi

40 - 442
تیسری مثال ملاحظہ فرمائیں: ایک شخص اپنی بیوی کا اسیر ’’زن مرید‘‘ ہے، وہ جس طرف چاہے اس کے منہ کو پھیر دیتی ہے اور وہ اسے گناہ سے روکتا ہے نہ کسی اچھے کام کی ترغیب دیتا ہے بلکہ عورت اس کی عقل پر سوار اور اس پر حاکم بن بیٹھی ہے۔ دوسرا شخص اپنی بیوی کے ساتھ تکبر وغرور کا معاملہ کرتا، اسے پر کاہ کی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسے اپنے گھریلو ملازم سے بھی کم تر سمجھتا ہے اور تیسرے شخص کا طرز عمل معتدل ہے، وہ اس کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: ﴿وَ لَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ِ (البقرۃ: ۲۲۸) ’’اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔‘‘ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا یَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُّؤْمِنَۃً اِنْ کَرِہَ مِنْہَا خُلْقًا رَضِیَ مِنْہَا آخَرَ)) صحیح مسلم، الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء، ح: ۱۴۶۷) ’’کوئی مومن مرد اپنی مومن بیوی سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی عادت اسے ناپسند ہوگی تو کوئی دوسری عادت پسند بھی ہوگی۔‘‘ ان تینوں میں سے یہ آخری شخص معتدل ہے، پہلا اپنی بیوی کے بارے میں غالی ہے اور دوسرا کوتاہ۔ دیگر تمام اعمال وعبادات کو بھی اسی پر قیاس کر لیجئے۔ ایمان دل سے تصدیق،زبان سے اظہار اور اعضا سے عمل کانام ہے سوال: اہل سنت والجماعت کے ہاں ایمان کی تعریف کیا ہے اور کیا ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے؟ جواب: اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان دل کے ساتھ تصدیق، زبان سے اظہار اور اعضا کے ساتھ عمل کرنے کا نام ہے، ایمان مندرجہ ذیل تین امور پر مشتمل ہے۔ ٭ اقرار بالقلب ’’دل کے ساتھ اعتراف۔٭ نطق باللسان ’’زبان سے شہادت‘‘٭عمل بالجوارح ’’اعضاء کے ساتھ عمل۔‘‘ ایمان کی تعریف جب یہ ہے، تو اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے کیونکہ دل کے ساتھ اعتراف کے درجات مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی خبر کا اقرار اس چیز کے اقرار کی طرح نہیں ہو سکتا جس کا بندے نے خود مشاہدہ کیا ہو، اسی طرح ایک آدمی کی خبر کا اقرار اس خبر کے اقرار کی طرح نہیں ہو سکتا جسے دو آدمیوں نے بیان کیا ہو، اسی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا: ﴿رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ﴾ (البقرۃ: ۲۶۰) ’’اے پروردگار! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا، اللہ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر ایمان نہیں رکھتے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن (میں دیکھنا) اس لیے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کر لے۔‘‘ دل کے اقرار، طمانیت اور سکون کی وجہ سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور اسے انسان خود بھی محسوس کرتا ہے، مثلاً: جب وہ کسی مجلس ذکر میں ہو اور اس میں وعظ ونصیحت اور جہنم و جنت کا ذکر خیرہو تو بندے کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان یوں محسوس کرتا ہے گویا جہنم و جنت کا وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہے پھر جب وہ اس مجلس سے اٹھ جائے اور اس پر غفلت طاری ہو جائے تو دل کے اس
Flag Counter