Maktaba Wahhabi

401 - 442
چار دفعہ آتا ہے، لہٰذا اس کے بارے میں حکم ممانعت حرمت کا نہیں ہے۔ علاوہ ازیں عیدین کی کئی خصوصیات بھی ہیں، جو جمعہ کے دن کی نہیں ہیں۔ اگر اس سے پہلے یا بعد میں ایک دن کا روزہ رکھ لے تو اس سے معلوم ہوگا کہ غرض خاص جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا نہیں ہے کیونکہ اس نے جمعہ سے ایک دن پہلے جمعرات یا اس کے ایک دن بعد یعنی ہفتے کے دن کا بھی روزہ رکھا ہے۔ سائل نے جو یہ پوچھا ہے کہ یہ حکم خاص نفلی روزے ہی کے لیے ہے یا عام ہے اور قضا کے روزے کو بھی شامل ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دلائل سے بظاہر عموم ہی معلوم ہوتا ہے یعنی خاص جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا مکروہ ہے، خواہ روزہ فرض ہو یا نفل اِلاَّیہ کہ کوئی انسان کام کاج میں مشغول ہو اور اس کے لیے جمعہ ہی کے دن روزہ رکھنا ممکن ہو تو پھر اس کے لیے جمعہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ نہیں ہوگا کیونکہ اسے روزہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ نفلی روزہ بوقت ضرورت توڑناجائزہے سوال ۳۴۷: اگر کوئی انسان کسی طرح اپنے نفلی روزے کو توڑ دے، تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟ اگر وہ جماع کے ساتھ روزہ توڑے، تو کیا اس پر کفارہ واجب ہوگا؟ جواب :اگر انسان نفلی روزہ رکھے، پھر اسے کھانے، پینے یا جماع کے ذریعہ توڑ دے، تو اسے گناہ نہیں ہوگا کیونکہ حج و عمرہ کے سوا دیگر کسی بھی عبادت کو شروع کرنے کے بعد مکمل کرنا لازم نہیں ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ اسے پورا کرے، لہٰذا نفلی روزے کی حالت میں جماع کر لینے کی صورت میں کفارہ واجب نہیں ، کیونکہ اس روزے کو پورا کرنا لازم نہیں ہے۔ فرض روزے کی حالت میں بیوی کے ساتھ جماع کرنا ناجائز ہے کیونکہ فرض روزے کو کسی اضطراری حالت کے بغیر توڑنا جائز نہیں اور کفارہ اسی صورت میں واجب ہوگا جب ماہ رمضان میں دن کے وقت وہ شخص جماع کر لے جس پر روزہ واجب ہو۔ ہمارے ان الفاظ پر غور کیجئے کہ ’’جس پر روزہ واجب ہو‘‘ یہ اس لیے کہ فرض کریں اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ سفر کرے اور سفر میں دونوں نے روزہ رکھا ہو اور پھر وہ جماع کر لیں تو انہیں گناہ ہوگا نہ ان پر کفارہ لازم ہوگا، اس صورت میں اسے اور اس کی بیوی کو اس دن کے روزے کی قضا ادا کرنی ہوگی۔ اعتکاف اورمعتکف کے احکام سوال ۳۴۸: اعتکاف کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا معتکف کے لیے قضائے حاجت، کھانے پینے اور علاج معالجے کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے؟ اعتکاف کی سنتیں کیا ہیں؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اعتکاف کی صحیح صورت کس طرح مروی ہے؟ جواب :اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کے لیے خلوت نشین ہونے کے لیے مسجدوں میں جم کر بیٹھ جانا اعتکاف ہے اور وہ لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے مسنون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اس طرح اشارہ فرمایا ہے: ﴿وَ لَا تُبَاشِرُوْہُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ﴾ (البقرۃ: ۱۸۷) ’’اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تو ان سے مباشرت نہ کرو۔‘‘ صحیحین اور دیگر کتب حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اعتکاف فرمایا تھا اور بعد میں
Flag Counter