Maktaba Wahhabi

148 - 442
تیسری قسم:یہ ہے کہ کوئی شخص کاہن کے پاس جائے اور اس سے اس لیے سوال کرے تاکہ لوگوں کے سامنے اس کے حال کو بیان کرکے ان کے مکر وفریب کا پردہ فاش کر سکے اور انہیں بتائے کہ یہ کہانت، ملمع سازی اور سراسر گمراہی ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ابن صیاد آیا تو آپ نے اپنے دل میں ایک بات کو چھپایا اور پھر اس سے پوچھا کہ وہ یہ بتائے کہ آپ نے اپنے دل میں کس بات کو چھپایا ہے؟ اس نے جواب دیا: ’’الدُخُّ‘‘ اور اس کا اس سے ارادہ سورۃ الدخان کا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس سے فرمایا: ((اِخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوْا قَدْرَکَ)) (صحیح البخاری، الجنائز، باب اذا اسلم الصبی فمات، ہل یصلی علیہ؟… ح: ۱۳۵۴ وصحیح مسلم، الفتن، باب ذکر ابن صیاد، ح:۲۹۲۴۔) ’’جاتو ذلیل و رسوا ہو جا، تو اپنی حیثیت سے ہرگزہرگز تجاوز نہیں کر سکے گا۔‘‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ کاہن کے پاس جانے والوں کے درج ذیل تین حالات ہیں: ۱۔ اس کے پاس جائے، اس سے سوال کرے لیکن اس کی تصدیق نہ کرے اور نہ اس کا مقصود اس کا حال بیان کرنا ہو، تو یہ حرام ہے اور ایسا کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ اس کی چالیس دنوں تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ ۲۔ اس سے سوال کرے اور اس کی تصدیق بھی کرے تو یہ اللہ عزوجل کے ساتھ کفر ہے، انسان کو اس سے توبہ کر کے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، ورنہ اس کی موت کفر پر ہوگی۔ ۳۔ کاہن کے پاس جا کر اس لیے سوال کرے تاکہ اس کا امتحان لے پھرلوگوں کے سامنے اس کا حال بیان کرکے اس کا پردہ فاش کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس عبادت کا حکم ہے جس میں ریا کی آمیزش ہو ؟ سوال ۷۵: ایسی عبادت کے بارے میں کیا حکم ہے، جس میں ریا کی آمیزش ہو؟ جواب :عبادت میں جب ریا کی آمیزش ہو تو اس کی حسب ذیل تین صورتیں ہو سکتی ہیں: ۱۔ عبادت کے پیچھے کار فرما جذبہ نمود ونمائش ہو، جیسے کوئی شخص لوگوں کے دکھاوے کی خاطر اس لیے عبادت کرے کہ لوگ نماز کی پابندی کی وجہ سے اس کی تعریف کریں، تو ایسی ریا کاری سے عبادت باطل ہوجاتی ہے۔ ۲۔ عبادت کے دوران ریا شروع کر دے، یعنی عبادت کو اس نے شروع تو اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے طور پر کیا ہو لیکن پھر عبادت کے دوران ہی ریا کا عنصر پیداہوگیا تو ایسی عبادت کی دو حالتیں ہوں گی: پہلی: عبادت کے پہلے حصے کو اس کے آخری حصے کے ساتھ نہ ملائے، تو اس صورت میں پہلا حصہ یقینا صحیح مگر آخری باطل ہوگا۔ اس کی مثال اس طرح ہے جیسے ایک شخص کے پاس سو ریال ہوں، وہ انہیں صدقہ کرنا چاہے تو پچاس ریال اخلاص کے ساتھ صدقہ کر دے اور باقی پچاس جو رہ گئے ہیں ان کے بارے میں وہ ریا میں مبتلا ہو جائے، تو پہلے پچاس کا صدقہ صحیح اور مقبول ہوگا اور باقی پچاس کا صدقہ اخلاص کے ساتھ ریا مل جانے کی وجہ سے باطل ہوگا۔ دوسری: عبادت کے پہلے حصے کو آخری حصے کے ساتھ ملا دے تو اس صورت میں انسان دو باتوں سے خالی نہ ہوگا۔
Flag Counter