Maktaba Wahhabi

451 - 442
جواب :جب انسان حج قران کرے، تو اس کے لیے حج و عمرہ دونوں کا ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہے، طواف قدوم سنت ہوگا اگر چاہے تو طواف قدوم کے بعد سعی بھی کر لے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور اگر چاہے تو سعی کو عید کے دن طواف افاضہ کے بعد تک مؤخر کر دے لیکن افضل یہ ہے کہ پہلے کر لے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی پہلے کی تھی۔ اس صورت میں عید کے دن وہ صرف طواف افاضہ کرے اور سعی نہ کرے کیونکہ اس نے سعی پہلے کرلی ہے اور اس بات کی دلیل کہ عمرہ وحج دونوں کے لیے ایک ہی طواف وسعی کافی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ فرمانا ہے جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حج قران تھا: ((طَوَافُکِ بِالْبَیْتِ وَباَلصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ یسعکِ لِحَجَّتِکِ وَعُمْرَتِکِ))( سنن ابی داود، المناسک، باب طواف القارن، ح: ۱۸۹۷۔) ’’تمہارا بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی، تمہارے حج و عمرہ کے لیے کافی ہے۔‘‘ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ قارن کا طواف وسعی اس کے حج و عمرہ دونوں کے لیے کافی ہے۔ رات کا زیادہ حصہ منیٰ میں بسر کیا جائے سوال ۵۳۰: جو شخص بارہ بجے تک رات کا وقفہ منیٰ میں گزارے اور پھر طلوع فجر کے بعد مکہ میں داخل ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اگر بارہ بجے منیٰ میں آدھی رات کا وقت ہو تو پھر اس کے بعد منیٰ سے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ رات دن منیٰ میں رہنا افضل ہے اور اگر بارہ بجے کا وقت آدھی رات سے پہلے ہو تو پھر منیٰ سے باہر نہیں نکلنا چاہیے کیونکہ منیٰ میں رات بسر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رات کا زیادہ حصہ منیٰ ہی میں بسر کیا جائے جیسا کہ ہمارے فقہاء نے ذکر فرمایا ہے۔ حاجی بارہ ذی الحجہ کو غروب سے پہلے منیٰ سےنکل سکتاہے سوال ۵۳۱: جب حاجی بارہ تاریخ کو غروب آفتاب سے قبل جلدی کی نیت سے منیٰ سے نکل جائے اور پھر غروب آفتاب کے بعد کسی کام سے اسے دوبارہ منیٰ میں واپس آنا پڑے، تو کیا اسے جلدی کرنے والا شمار کیا جائے گا؟ جواب :ہاں اسے جلدی کرنے والا شمار کیا جائے گا کیونکہ اس نے حج کو ختم کر دیا ہے اور کسی کام کی وجہ سے منیٰ میں دوبارہ واپس آنے کی نیت جلدی سے مانع نہیں ہے کیونکہ اس نے حج کے لیے نہیں بلکہ کسی کام کے لیے واپس آنے کی نیت کی ہے۔ تیرہ ذو الحجہ کوزوال سے پہلے رمی کرناجائز نہیں سوال ۵۳۲: سعودیہ سے باہر کے ایک حاجی کی واپسی کا وقت ۱۳ ذوالحجہ کو چار بجے عصر کے قریب طے ہے۔ وہ بارہ تاریخ کو رمی کے بعد منیٰ سے باہر نہیں نکلا اور تیرہویں رات اسے منیٰ ہی میں گزارنی پڑی تو کیا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ صبح کو رمی کر کے روانہ ہو جائے کیونکہ اگر اسے زوال کے بعد تک تاخیر ہوگئی تو وہ سفر نہیں کر سکے گا اور اسے بہت مشکل پیش آئے گی؟ اگر جواب عدم جواز کا ہے، تو کیا کسی رائے کے مطابق زوال سے پہلے رمی کرنا جائز ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللّٰه عنا وعن المسلمین خیرا
Flag Counter