Maktaba Wahhabi

347 - 442
’’جس نے کوئی غلام خریدا اور اس کا مال بھی ہو تو اس کا مال اس کے لیے ہے جس نے اسے بیچا الا یہ کہ خریدار اس کی شرط طے کرلے۔‘‘ غلام جب مال کا مالک ہی نہیں، تو اس پر زکوٰۃ بھی واجب نہیں اور اگر یہ بات فرض کرلی جائے کہ غلام مال کا مالک ہے تو آخر کار اس کی ملکیت اس کے آقا کے پاس لوٹ آتی ہے کیونکہ اس کے آقا کو یہ حق حاصل ہے کہ جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے وہ اس سے لے لے، لہٰذا اس کی ملکیت ناقص ہے، اس کی حیثیت آزادشخص کی ملکیت کی طرح مستقل نہیں ہے کیونکہ آزاد کے مال کی مستقل ملکیت ہوتی ہے۔ (۳) ملکیت نصاب: ملکیت نصاب کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے پاس اتنا مال ہو جو اس نصاب کو پہنچ جاتا ہو جسے شریعت نے مقرر کیا ہے اور مختلف اموال کا نصاب بھی مختلف ہے۔ اگر انسان کے پاس بقدر نصاب مال نہ ہو، تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں کیونکہ اس کا مال قلیل ہے جو ہمدردی وخیر خواہی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مویشیوں کے نصاب کی مقدار میں ابتدا اور انتہا کا خیال رکھا گیا ہے، جب کہ دیگر چیزوں میں صرف ابتدا ہی کا خیال رکھا گیا ہے اور جو نصاب سے زیادہ ہوگا تو اس کی زکوٰۃ اس کے حساب سے ہوگی۔ (۴) سال کا گزرنا: سال گزرنے کی شرط اس لیے ہے کہ اگر سال سے کم عرصے میں زکوٰۃ کو واجب قرار دے دیا جائے، تو یہ مال داروں کے مال میں نقصان کو مستلزم ہوگا اور سال سے زیادہ مدت کے وجوب کی صورت میں زکوٰۃ کے مستحق لوگوں کا نقصان ہوگا، لہٰذا شریعت نے حکمت ومصلحت کے پیش نظر ایک مدت متعین کر دی ہے، جس میں زکوٰۃ واجب ہے اور وہ ہے ایک سال دراصل ایک سال کے ساتھ اسے مربوط کرنے سے دولت مندوں اور مستحقین زکوٰۃ کے حق میں توازن پیدا کرنا مقصود ہے، لہٰذا اگر سال پورا ہونے سے پہلے انسان فوت ہو جائے یا اس کا مال تلف ہو جائے تو اس سے زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی، البتہ تین چیزیں سال کی شرط سے مستثنیٰ ہیں: ٭ تجارت کا نفع ٭مویشیوں کے پیدا ہونے والے بچے ٭زمین کی پیداوار تجارت کے نفع کا سال اس کے اصل کا سال ہے، مویشیوں کے پیدا ہونے والے بچوں کا سال ان کی ماؤں کا سال ہے اور زمین کی پیداوار، یعنی فصلیں اور پھل وغیرہ ان کا سال اس وقت ہے، جب یہ پیداوار حاصل ہوں۔ ماہانہ تنخواہوں سے زکوٰۃ نکالنے کاطریقہ سوال ۳۵۵: ماہانہ تنخواہوں سے زکوٰۃ نکالنے کا کیا طریقہ ہے؟ جواب :اس سلسلے میں سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ اس نے سب سے پہلی تنخواہ جو وصول کی تھی، اس کو جب ایک سال ہو جائے، تو وہ اس سارے مال کی زکوٰۃ ادا کرے جو اس کے پاس موجود ہو۔ اس طرح جس مال پر سال پورا ہوگیا، اس کی زکوٰۃ تو اس نے سال پورا ہونے پر ادا کر دی اور جس مال پر ابھی سال پورا نہیں ہوا، اس کی اس نے پیشگی زکوٰۃ ادا کر دی اور پیشگی زکوٰۃ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، یہ صورت حال اس سے زیادہ آسان ہے کہ انسان ہر مہینے کا علیحدہ علیحدہ حساب رکھے۔ یاد رہے کہ اگر دوسرے مہینے کی تنخواہ ملنے سے پہلے، پہلے مہینے کی تنخواہ خرچ ہو جائے تو اس صورت میں زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ مال میں زکوٰۃ کے وجوب کی ایک شرط
Flag Counter