Maktaba Wahhabi

363 - 442
جواب :صدقات ماہ رمضان ہی کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ یہ ہر وقت مستحب اور مشروع قرار دئیے گئے ہیں زکوٰۃ انسان پر اس وقت واجب ہوجاتی ہے جب اس کے مال پر ایک سال مکمل ہوگیا ہو، سال مکمل ہوتے ہی اسے فوراً زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے اس کے لئے رمضان کا انتظار نہیں کرنا چاہیے الایہ کہ رمضان قریب ہو، مثلاً: شعبان میں سال پورا ہوگیا ہو تو اس صورت میں رمضان کا انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر زکوٰۃ کا سال محرم میں پورا ہو جاتا ہو تو پھر رمضان تک تاخیر کرنا جائز نہیں، البتہ یہ جائز ہے کہ محرم آنے سے پہلے رمضان میں پیشگی زکوٰۃ ادا کر دے۔ لیکن وجوب کے وقت سے تاخیر کرنا جائز نہیں کیونکہ وہ واجبات جو سبب کے ساتھ مقید ہوں، انہیں اس کے سبب کے وجود کے وقت ادا کرنا ضروری ہے اور اس سے مؤخر کرنا جائز نہیں، پھر آدمی کے پاس اس بات کی بھی تو کوئی ضمانت نہیں کہ جس وقت کے لیے اس نے زکوٰۃ کو مؤخر کیا ہے، اس وقت تک وہ زندہ بھی رہے گا یا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آخرت کو سدھار جائے اور زکوٰۃ اس کے ذمہ باقی رہے اور وارث بھی اسے ادا نہ کریں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وارثوں کو اس کا علم ہی نہ ہو۔ اس طرح زکوٰۃ نکالنے میں سستی کی وجہ سے مزید کئی اسباب کے سراٹھانے کا شدید خطرہ ہے ہوسکتا ہے یہ اسباب اس کے اور زکوٰۃ ادا کرنے کے درمیان حاجزبن کر کھڑے ہوجائیں۔ جہاں تک صدقات کا تعلق ہے، تو صدقے کے لیے کوئی وقت معین نہیں ہے۔ سال کے سارے دنوں میں صدقہ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ لوگ اس کو ضرور پسند کرتے ہیں کہ وہ صدقہ و زکوٰۃ رمضان میں ادا کریں کیونکہ یہ افضل وقت ہے، جو دوسخا کا وقت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو جودوسخا میں سب لوگوں سے بڑھے ہوئے تھے، مگر رمضان میں جب جبرئیل قرآن مجید کا دور کرنے کرانے کے لیے آپؐ کے پاس آتے، اس وقت آپ کی جو دوسخا کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا تھا، البتہ یہ جاننا واجب ہے کہ رمضان میں زکوٰۃ یا صدقے کی فضیلت کا تعلق وقت کے ساتھ ہے۔ یا اس کے ساتھ کوئی دوسری فضیلت بھی محل نظر ہواکرتی ہے جس کا مرتبہ وقت کی فضیلت سے بھی بڑھ کر ہے، مثلاً: فقرا کی ضرورت و حاجت شدیدتر ہو جانا تو پھر اسے رمضان تک مؤخر کرنا جائز نہیں۔ اس صورت میں اس وقت کو ترجیح دینی چاہیے جو فقیروں کے لیے زیادہ مفید ہو اور اکثر و بیشتر صورتوں میں فقرا رمضان کے علاوہ دیگر اوقات میں زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں کیونکہ رمضان میں تو صدقہ و زکوٰۃ کی کثرت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ رمضان میں خود کفیل اور بے نیاز ہو جاتے ہیں جب کہ سال کے باقی دنوں میں انہیں شدید ضرورت درپیش ہوتی ہے، لہٰذا یہ مسئلہ پیش نظر رہنا چاہیے اور وقت کی فضیلت کو دیگر تمام فضیلتوں سے مقدم قرار نہیں دینا چاہیے بلکہ فقراء ومساکین کی حاجت مندی اور ان کی ضرورت مندی محل نظر ہونی چاہئے۔ صدقہ جاریہ وہ ہے جسے انسان خود اپنی طرف سےدے سوال ۳۸۹: کیا صدقہ جاریہ وہ ہے جسے انسان نے خود اپنی زندگی میں کیا ہو، یا صدقہ جاریہ وہ ہے، جو اس کی وفات کے بعد اس کی طرف سے اس کے وارث انجام دیں ؟ جواب :نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ((اِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ)) (صحیح مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، ح: ۴۲۲۳، ۱۶۳۱ (۱۴)۔) ’’سوائے صدقہ جاریہ کے۔‘‘
Flag Counter