Maktaba Wahhabi

354 - 442
زکوٰۃ ان سے حاصل ہونے والے کرائے پر واجب ہوگی بشرطیکہ کرائے سے حاصل شدہ مال نصاب کو پہنچ جاتا ہو یا اس کے پاس جو دیگر سرمایہ ہو اس کے ساتھ مل کر نصاب کے مطابق ہو جاتا ہو اور اس پر سال کی مدت پوری ہو جائے۔ اسی طرح ان عمارتوں میں بھی زکوٰۃ نہیں، جو کرائے پر دی جاتی ہوں، بلکہ زکوٰۃ ان سے وصول ہونے والے کرائے پر ہوگی۔ سوال ۳۷۰: کرائے پر دیے ہوئے گھر کی زکوٰۃ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :وہ گھر جو کرائے پر دینے کے لیے ہو، اس کی قیمت میں زکوٰۃ نہیں بلکہ زکوٰۃ اس سے حاصل ہونے والے کرائے میں ہے بشرطیکہ کرائے کے معاہدے پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے اور اگر معاہدے پر ایک سال کا عرصہ نہ گزرے تو اس صورت میں بھی اس مال میں زکوٰۃ نہیں ہے، مثلاً: ایک شخص نے دس ہزار کے کرائے پر کسی کو اپنا گھر دیا اور اس سے پانچ ہزار معاہدے کے وقت وصول کر لیے اور انہیں خرچ کر لیا اور پھر نصف سال گزرنے کے بعد باقی پانچ ہزار بھی وصول کر لیے اور سال مکمل ہونے سے پہلے انہیں خرچ کر لیا تو اس صورت میں اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی کیونکہ اس مال پر سال پورا نہیں ہوا۔ اگر اس نے گھر تجارت کے لیے رکھا ہو اور وہ اس سے نفع حاصل کرنے کا منتظر ہو اور وہ یہ کہے کہ جب تک یہ گھر فروخت نہیں ہوتا، میں اسے کرائے پر دے دیتا ہوں تو اس صورت میں گھر کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوگی، نیز کرائے پر بھی بشرطیکہ ایک سال کی مدت گزر جائے جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے۔ گھر کی قیمت پر زکوٰۃ اس لیے واجب ہوگی کہ اس گھر کو اس نے تجارت کے لیے رکھا ہے اس نے اسے اپنے پاس رکھنے اور اس کا کرایہ حاصل کرنے کے لیے نہیں رکھا ہے اور ہر وہ چیز جس سے مقصود تجارت اور کمائی ہو، اس میں زکوٰۃ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی)) (صحیح البخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم مسلم، الامارۃ، باب قولہ: صلی اللّٰه علیہ وسلم انما الاعمال بالنیۃ، ح: ۱۹۰۷۔) ’’تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے نیت کی۔‘‘ جس شخص کے پاس اموال ہوں اور وہ ان کے ذریعہ کمائی کرنا چاہتا ہو تو اس کی نیت ان کی قیمت کی ہے، ان کی ذات کی نہیں ظاہر ہے ان کی قیمت دراہم اور نقدی ہے، دراہم اور نقدی میں زکوٰۃ واجب ہے، لہٰذا جس شخص کا مقصد تجارت اور کرایہ وصول کرنا ہو تو اس صورت میں گھر کی قیمت اور اس سے وصول ہونے والے کرائے دونوں میں زکوٰۃ واجب ہوگی بشرطیکہ معاہدے پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے۔ پلاٹ پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں جب تک ذاتی رہائش کی نیت ہو سوال ۳۷۱: ایک شخص نے ذاتی رہائش کے لیے ایک پلاٹ خریدا تھا مگر تین سال بعد اس نے اس کے بیچنے کی نیت کرلی تاکہ نفع حاصل کرے، تو کیا گزشتہ سالوں کی بھی زکوٰۃ اس کواداکرنی ہوگی؟ جواب :گزشتہ سالوں کی اس میں زکوٰۃ واجب نہ ہوگی کیونکہ اس وقت اس کی نیت ذاتی رہائش کی تھی لیکن جب اس نے اسے بیچنے اور اس سے نفع حاصل کرنے کی نیت کر لی تو اس پر ایک سال گزرنے کے بعد ہی زکوٰۃ واجب ہوگی۔
Flag Counter