Maktaba Wahhabi

278 - 442
ہے کہ امام اس قدر سکتہ کرے جس میں مقتدی سورۂ فاتحہ پڑھ سکے۔ آپ بہت تھوڑا سا سکوت فرمایا کرتے تھے، جس سے ایک طرف سانس لینا مقصود ہوتا اور دوسری طرف مقتدی کو موقع فراہم کیا جاتا تاکہ وہ قراء ت جاری رکھتے ہوئے سورہ فاتحہ مکمل کر لے ،خواہ امام قراء ت کرتا رہے۔ الغرض !یہ ایک بہت چھوٹا سا سکتہ ہوتا تھا، اس میں تطویل نہیں ہوتی تھی۔ نماز فجر کی اگر ایک رکعت رہ جائے تو اسےجہراً مکمل کرنا ہے یا سراً؟ سوال ۲۴۴: ایک شخص سے نماز فجر کی ایک رکعت فوت ہوگئی، کیا وہ اسے جہراً مکمل کرے یا سراً؟ جواب :اسے اختیار ہے لیکن افضل یہ ہے کہ وہ اسے سراً مکمل کرے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہاں کوئی دوسرا شخص بھی نماز پڑھ رہا ہو جو اس کے جہراً پڑھنے سے تشویش محسوس کرے۔ رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنے کےمتعلق کیا حکم ہے ؟ سوال ۲۴۵: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت کے متعلق ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنا بدعت و ضلالت ہے۔ اس بارے میں صحیح بات کیا ہے؟ جزاکم اللّٰہ عنی وعن المسلمین خیراً جواب :میں اس بات میں حرج محسوس کرتا ہوں کہ کسی ایسی وجہ سے سنت کی مخالفت کرنے والے کو، جس میں اجتہاد کی گنجائش ہو، بدعتی قرار دیا جائے،چنانچہ جو لوگ رکوع کے بعد اپنے ہاتھوں کو اپنے سینوں پر رکھتے ہیں ان کے قول کی بنیاد سنت ہے، لہٰذا انہیں اس وجہ سے بدعتی قرار دینا کہ انہوں نے ہمارے اجتہاد کی مخالفت کی ہے، یہ انسان کے لیے ایک بہت ثقیل بات ہے۔ اس طرح کے امور میں انسان کو بدعت کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایسے اجتہادی مسائل میں بھی بعض لوگ دوسروں کو بدعتی قرار دیں جن میں اس بات کا احتمال ہوتا ہے کہ حق ایک قول ہو یا دوسرا۔ ایسے اجتہادی مسائل میں بدعتی قرار دینے سے ایسا اختلاف وانتشار پیدا ہوتا ہے جس کی تباہ کاریوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنے والے کو بدعتی اور اس کے اس عمل کو بدعت قرار دینا انسان کے لیے بہت ثقیل ہے، اپنے بھائیوں پر یہ الزام نہیں لگانا چاہیے۔ درست بات یہ ہے کہ رکوع کے بعد دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ لینا سنت ہے اور اس کی دلیل حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح بخاری کی ہی حدیث ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے: ((کَانَ النَّاسُ یأْمَرُونَ أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ الْیَدَ الْیُمْنَی عَلَی ذِرَاعِہِ الْیُسْرَی فِی الصَّلَاۃِ)) (صحیح البخاری، الاذان، باب وضع الیمنی علی الیسری، ح: ۷۴۰۔) ’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھیں۔‘‘ اس حدیث سے استدلال استقراء اور تتبع کی بنیاد پر ہے اور وہ اس طرح کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حالت سجدہ میں ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ زمین پر! ہم کہتے ہیں کہ حالت رکوع میں ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟ جواب ہے کہ دونوں گھٹنوں پر۔ ہم کہتے ہیں کہ جلسہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟ تو اس کا جواب ہے کہ دونوں رانوں پر۔
Flag Counter