Maktaba Wahhabi

189 - 442
((لَا مُکْرِہَ لَہُ)) (صحیح مسلم، الذکر والدعاء باب العزم بالدعاء، ح: ۲۶۷۹۔) ’’اسے کوئی مجبور نہیں کر سکتا۔‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَقُولَّ أَحَدُکُمْ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی إِنْ شِئْتَ اَللّٰہُمَّ ارْحَمْنِی إِنْ شِئْت ولکنَ لِیَعْزِمِ الْمَسْأَلَۃ، ولیعزم الرغبۃ فان اللّٰه لا مکرہ لہ، ولا یتعاظمہ شیء أعطاہَ ُ))( صحیح البخاری، الدعوات، باب لیعزم المسالۃ فانہ لا مکرہ لہ، ح: ۶۳۳۹۔) ’’تم میں سے کوئی یہ نہ کہے اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف فرما دے، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما، بلکہ اسے پورے وثوق سے دعا کرنی چاہیے اور پوری رغبت کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ اللہ کو کوئی مجبور نہیں کر سکتا اور جو کچھ وہ عطاء کردے وہ اس کے لئے گراں بار نہیں ہوسکتی اور نہ ہی وہ اس کے لئے کوئی بڑی بات ہے۔‘‘ لہٰذا ’’اللہ تعالیٰ معاف نہ کرے‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے کے بجائے یہ زیادہ بہتر ہے کہ یوں کہے: ’’اللہ ایسا نہ کرے‘‘ کیونکہ یہ الفاظ اس وہم سے بہت دور ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں۔ کسی معین شخص کو ’’اے اطمینان پانے والی روح‘‘ نہیں کہنا چاہیے سوال ۱۱۹: جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو بعض لوگ یہ آیات پڑھتے ہیں: ﴿یٰٓاَ یَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ، ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً، ﴾ ’’اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کرچل، تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی۔‘‘ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :ان آیات کا کسی مخصوص شخص پر اطلاق جائز نہیں کیونکہ اس طرح یہ گویا اس بات کی شہادت ہوگی کہ وفات پانے والا شخص قطعی طور پر ان مخصوص لوگوں کی صف میں شامل ہے جن سے بوقت وفات یہ کہا جاتا ہے۔ ٭٭٭
Flag Counter