Maktaba Wahhabi

61 - 442
عبادت کا مقصود تقرب الہٰی اور جنت کا حصول ہونا چاہیے سوال ۲۰: اخلاص کے کیا معنی ہیں اور اگر عبادت سے مقصود کوئی اور چیز ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کا عبادت سے مقصود تقرب الٰہی اور جنت کا حصول ہو اور اگر عبادت سے مقصود کچھ اور ہو تو اس کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ۱۔ عبادت سے مقصود اگر غیر اللہ کا تقرب اور لوگوں کی طرف سے تعریف و توصیف کا حصول ہو تو اس سے عمل ضائع ہو جاتاہے کیونکہ یہ شرک ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ((اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا اَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیَ غَیْرِی تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ)) (صحیح مسلم، الزہد والرقائق، باب تحریم الریاء ح: ۲۹۸۵۔) ’’میں تمام شرکاء کی نسبت شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں اس نے میرے ساتھ کسی غیر کو بھی شریک کر لیا تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑکر دست بردارہوجاتا ہوں۔‘‘ ۲۔ عبادت سے مقصود اقتدار، منصب یا مال وغیرہ کی دنیوی غرض کا حصول ہو، تقرب الٰہی کا حصول مقصود نہ ہو تو یہ عمل بھی رائیگاں جاتا ہے اور اس کا تصرف انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کا سبب نہیں بنتا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَ ہُمْ فِیْہَا لَا یُبْخَسُوْنَ، اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ، ﴾(ہود: ۱۵۔۱۶) ’’جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں، ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا اور کچھ نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کیے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے، سب ضائع ہوا۔‘‘ اس میں اور پہلی قسم میں فرق یہ ہے کہ پہلی قسم میں مقصود یہ تھا کہ اس کی تعریف کی جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہے جب کہ دوسرے شخص کا مقصود یہ نہیں ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، لوگوں کی تعریف کرنے یا نہ کرنے کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں بلکہ اس کا مطمع نظر تقرب الہی کے بجائے کچھ اور ہی ہے جس کاتذکرہ ابھی ابھی کیا جاچکا۔ ۳۔ عبادت سے مقصود تقرب الٰہی کے حصول کے ساتھ ساتھ کوئی دنیوی غرض بھی ہو، مثلاً: عبادت کے لیے طہارت کی نیت کے وقت جسمانی بشاشت اور نظافت کا ارادہ بھی کر لے، نماز ادا کرتے وقت جسمانی ورزش کا بھی ارادہ کر لے، روزے کے ساتھ جسمانی وزن کے کم کرنے اور فضلات کےدور کرنے کا بھی قصد کرلے اور حج کے ساتھ مشاعر اور حجاج کی زیارت کا ارادہ بھی کر لے تو اس سے اخلاص کے اجر میں کمی آجاتی ہے اور اگرچہ غالب نیت عبادت ہی کی ہے تو اس سے کمال اجر و ثواب میں کمی آجاتی ہے لیکن وہ اسے گناہ یا جھوٹ کے ساتھ نقصان مضرت رسانی کا باعث نہ ہوگا کیونکہ حجاج کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ﴾ (البقرۃ: ۱۹۸)
Flag Counter