Maktaba Wahhabi

203 - 442
﴿فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ﴾ (المائدۃ: ۶) ’’تو منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو۔‘‘ عورت نے اپنے ناخنوں پر جب نیل پالش یا مصنوعی ناخن لگا رکھے ہوں جو پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ ہوں تو ایسی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس عورت نے اپنے ہاتھوں کو دھویا ہے اور جب اس نے اپنے ہاتھوں کو نہیں دھویا تو اس نے وضو یا غسل کے فرائض میں سے ایک فرض کو ترک کر دیا اور اگر عورت ایسی ہو جو نماز نہ پڑھتی ہو، مثلاً: حائضہ عورت، تو اس کے لیے ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں الایہ کہ یہ فعل کا فر عورتوں کے خصائص میں سے ہو تو پھر ان کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے یہ جائز نہ ہوگا۔ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ مصنوعی ناخنوں اور نیل پالش کا استعمال موزوں کے پہننے کی طرح ہے، لہٰذا عورت کے لیے ایک دن رات کی مدت تک ان کا استعمال کرنا جائز ہے، جب کہ وہ مقیم ہو اور اگر مسافر ہو تو پھر تین دن کی مدت تک ان کا استعمال جائز ہے لیکن یہ فتویٰ بالکل غلط ہے کیونکہ تمام وہ چیزیں جن سے لوگ اپنے بدنوں کو چھپائیں، وہ موزوں کی طرح نہیں ہیں کیونکہ شریعت نے غالباً ضرورت کے پیش نظر ان پر مسح کو جائز قرار دیا ہے۔ پاؤں کو سردی سے بچنے اور انہیں دیگر چیزوں سے چھپانے کے لیے موزوں کی ضرورت ہے کیونکہ پاؤں براہ راست زمین اور کنکریوں پر لگتے اور سردی سے دو چار ہوتے ہیں، لہٰذا شریعت نے بطور خاص انہی پر مسح کی اجازت دی ہے۔ بعض لوگوں نے مصنوعی ناخنوں اور نیل پالش کے استعمال کو عمامہ پر بھی قیاس کیا ہے لیکن ان کا یہ قیاس بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ عمامہ کا مقام سر ہے اور اس کے لیے فرض مسح ہی ہے جب کہ اس کے برعکس ہاتھوں کو دھونا فرض ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لیے دستانوں پر مسح کو جائز قرار نہیں دیا حالانکہ یہ بھی ہاتھوں کو چھپا لیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ بننے والی کسی بھی چیز کو عمامہ یا موزوں پر قیاس کرے۔ بلکہ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حق معلوم کرنے کے لیے مقدور بھر کوشش کرے اور فتویٰ دینے کی کوشش نہ کرے الایہ کہ اسے معلوم ہو کہ اس کے لیے فتویٰ دینا ضروری ہے اور اگر اس نے فتویٰ نہ دیا تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں اس سے سوال کرے گا۔ کیونکہ فتویٰ کو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے تعبیرکیاجاتا ہے۔ واللّٰہ الموفق والہادی الی الصراط المستقیم وضو کامکمل طریقہ سوال ۱۴۰: شریعت میں مطلوب وضو کا کیا طریقہ ہے؟ جواب :شرعی وضو کے دو پہلو ہیں: ۱۔ وہ فرائض وواجبات جن کے بغیر وضو صحیح نہیں ہوتا اور وضو کے یہ فرائض وواجبات حسب ذیل آیت کریمہ میں مذکور ہیں: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُئُ سِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ﴾ (المائدۃ: ۶) ’’مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو تو منہ اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو۔‘‘ گویا فرائض وواجبات یہ ہیں: چہرے کا ایک بار دھونا اور کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرنا بھی اسی میں شامل
Flag Counter