Maktaba Wahhabi

444 - 442
نَہَارًا فَقَدْ تَمَّ حَجُّہُ وَقَضٰی تَفَثَہٗ))( سنن ابی داود، المناسک باب من لم یدرک عرفۃ، ح: ۱۹۵۰، وجامع الترمذی، الحج، باب ماجاء فی من ادرک الامام بجمع فقد ادرک الحج، ح: ۸۹۱ واللفظ لہ۔) ’’جو ہماری اس نماز میں شریک ہو جائے اور ہمارے ساتھ وقوف کر کے لوٹے اور اس سے پہلے رات یا دن کو کسی وقت اس نے عرفہ میں وقوف کر لیا ہو تو اس نے اپنے حج کو مکمل کر لیا اور اپنے میل کچیل کو دور کر دیا۔‘‘ البتہ انہوں نے یہ غلطی کی کہ نماز کو آدھی رات سے مؤخر کر دیا جب کہ عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ثابت ہے۔ رمی جمار کے متعلق مسائل سوال ۵۱۶: ایک عورت رات کے آخری حصے میں مزدلفہ سے لوٹی اور اس نے رمی جمار کے لیے اپنے بیٹے کو اپنی طرف سے وکیل مقرر کر دیا، حالانکہ وہ خود بھی رمی کر سکتی ہے۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فتویٰ دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب عطا فرمائے۔ جواب :جمرات کو کنکریاں مارنا مناسک حج میں سے ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا اور آپ نے خود بھی کنکریاں ماریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَیْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامِۃِ ذِکْرِ اللّٰہِ))( سنن ابی داود، المناسک، باب فی الرمل، ح: ۱۸۸۸، وجامع الترمذی، الحج، باب ماجاء کیف ترمی الجمار، ح: ۹۰۲، ومسند احمد: ۶/ ۶۴، واللفظ لہ۔) ’’بیت اللہ کے طواف، صفا و مروہ کی سعی اور رمی جمرات کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کوزندہ کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔‘‘ جمرات کو کنکریاں مارنا عبادت ہے جس سے انسان اپنے رب تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے۔ بلاشبہ یہ عبادت الہی کا مظاہر میں سے ہے کہ انسان اس جگہ ان کنکریوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر کے لیے پھینکتا ہے۔ اس لئے یہ محض اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت جلوہ نمائی ہے، اس لیے انسان کو نہایت خشوغ خضوع کے ساتھ جمرات کو کنکریاں مارنی چاہئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اول وقت رمی جمرات افضل ہے یا آخر وقت میں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آخر وقت میں اطمینان، خشوع اور حضور قلب کے ساتھ کنکریاں مارنا ممکن ہو تو پھر آخر وقت میں افضل ہے کیونکہ اس خوبی کا نفس عبادت سے تعلق ہے اور جس چیز کا نفس عبادت سے تعلق ہو، وہ عبادت کے زمان ومکان سے مقدم ہوتی ہے، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا صَلَاۃَ بِحَضْرَۃِ الطَّعَامِ وَلَا ہُوَ یُدَافِعُُ الْأَخْبَثَانِ))( صحیح مسلم، المساجد، باب کراہۃ الصلاۃ بحضرۃ الطعام، ح: ۵۶۰۔) ’’کھانے کی موجودگی میں نمازجائز ہے نہ اس وقت جب انسان کو بول و براز کا تقاضا ہو۔‘‘ چنانچہ انسان قضائے حاجت کی وجہ سے نماز کو اول وقت سے مؤخر کر نے کا مکلف ہے یا جب کھانے کی ضرورت ہو اور کھانا موجود ہو تو اس وقت بھی نماز کو مؤخر کر ے گااور پہلے کھانا کھائے گا۔ اب صورت یہ ہے کہ یا تو وہ اول وقت کنکریاں مارے ، مشقت کے ساتھ
Flag Counter