Maktaba Wahhabi

266 - 442
جواب :مسافر کے لیے مقیم امام کی اقتدا میں نماز قصر کرنا جائز نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کے عموم کا یہی تقاضا ہے: ((مَا اَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُمْ فَاَتِمُّوْا)) (صحیح البخاری، الاذان، باب لا یسعی الی الصلاۃ… الخ، ح:۶۳۶ وصحیح مسلم، المساجد، باب استحباب اتیان الصلاۃ بوقار، ح: ۶۰۲) ’’لہٰذا نماز کا جو حصہ پا لو اسے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اسے مکمل کر لو۔‘‘ چنانچہ مسافر جب مقیم امام کے ساتھ آخری دو رکعتیں پائے تو اس کے لیے واجب ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد دو رکعتیں اور پڑھے اور اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ دو رکعتوں پر اکتفا کر کے امام کے ساتھ سلام پھیر دے۔ سوال ۲۲۳: نماز کے لیے تیز تیز چل کر جانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :انسان کے لیے اس بات کی ممانعت ہے کہ وہ نماز کے لیے تیز تیز چل کر جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم نماز کے لیے سکون و وقار کے ساتھ چل کر جائیں اور تیز چل کر جانے سے منع فرمایا ہے، البتہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ایسی تیز رفتاری میں کوئی حرج نہیں جو معیوب نہ سمجھی جاتی ہو اور پہلی رکعت کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: جب وہ مسجد میں داخل ہو اور امام حالت رکوع میں ہو اور وہ ایسی تیز رفتاری سے چلے جو بری نہ ہو۔ (لیکن) جیسا کہ بعض لوگ تیز دوڑتے بھاگتے ہوئے آتے ہیں تو یہ ممنوع ہے جب کہ سکون و وقار کے ساتھ آنا اور جلد بازی نہ کرنا افضل ہے، خواہ اس کی رکعت فوت ہی کیوں نہ ہو جائے۔ حدیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ سوال ۲۲۴: کیا نماز باجماعت میں امام کے ساتھ رکعت پا لینے کے لیے تیز چل کر آنا جائز ہے، فتویٰ سے نوازیں، اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت و نگہداشت فرمائے؟ جواب :آپ جب مسجد میں آئیں اور امام رکوع کی حالت میں ہو تو جلدی نہ کریں اور صف تک پہنچنے سے پہلے نماز شروع نہ کریں کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب ایسا کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: ((زَادَکَ اللّٰہُ حِرْصًا وَلاَ تَعُدْ)) (صحیح البخاری، الاذان، باب: اذا رکع دون الصف، ح:۷۸۳۔) ’’اللہ تعالیٰ تمہارے شوق میں اضافہ فرمائے، دوبارہ ایسا نہ کرنا۔‘‘ مسجد میں بآواز بلند تلاوت جبکہ وہ نمازیوں کےلیےباعث تشویش ہو سوال ۲۲۵: مسجد میں ایسی بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے جو نمازیوں کے لیے تشویش کا سبب بنے؟ جواب :آدمی کا مسجد میں ایسی حالت میں بآواز بلند قرآن مجید پڑھنا جو نمازیوں یا پڑھنے والوں یا قاری قرآن کے لیے تشویش کا سبب بنے، حرام ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں بیاضی (فروہ بن عمرو) سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے جب کہ لوگ اس طرح نماز پڑھ رہے تھے کہ قراء ت میں ان کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں تو آپ نے فرمایا: ((اِنَّ الْمُصَلِّی یُنَاجِی رَبَّہُ عَزَّوَجَلَّ فَلْیَنْظُرْْ بِمَا یُنَاجِیہ بہُ وَلَا یَجْہَرْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ بِالْقِرَآنِ)) (سنن ابی داود، الصلاۃ، باب رفع الصوت بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل، ح: ۱۳۳۲
Flag Counter