Maktaba Wahhabi

433 - 442
’’اور جو بات تم سے غلطی کے ساتھ ہوگئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے شکار کے بارے میں فرمایا ہے، جو ممنوعات احرام میں سے ہے: ﴿وَ مَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا﴾ (المائدۃ: ۹۵) ’’اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے (تو اس کا بدلہ دے ۔‘‘) اور اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ ممنوع امور کا تعلق لباس سے ہو یا خوشبو سے، شکار مارنے سے ہو یا سر کے بال منڈا دینے وغیرہ سے۔ اگرچہ بعض علماء نے فرق کیا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان میں کوئی فرق نہیں کیونکہ یہ وہ ممنوع امور ہیں جن میں انسان بھول جانے یا عدم واقفیت یا مجبور کر دیے جانے کی وجہ سے معذور ہے۔ حج کی غلطیوں کا کفارہ کہاں ادا کیا جائے؟ سوال ۴۹۳: حج ادا کرتے ہوئے ایک حاجی سے کچھ غلطیاں سر زد ہوگئیں لیکن اس کے پاس کفارہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں اور وہ اپنے ملک واپس چلا گیا۔ کیا اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی وہ کفارہ وغیرہ ادا کر سکتا ہے یا اس کے لیے مکہ میں ہونا لازم ہے؟ اور اگر مکہ میں ہونا لازم ہے، تو کیا وہ کسی کو اپنا وکیل بنا سکتا ہے؟ جواب :جواب دینے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اس سے کون سی غلطی سرزد ہوئی۔ اگر اس نے کسی واجب کو ترک کر دیا ہے، تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ فدیے کا جانور مکہ میں ذبح کرے، اس کا تعلق حج سے ہے، لہٰذا یہ مکہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ ذبح نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس نے کسی ممنوع کام کا ارتکاب کیا ہے، تو اس کے لیے تین امور میں سے کوئی ایک امر کافی ہے: (۱)چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے اور یہ کھانا مکہ میں کھلائے یا اس جگہ جہاں اس نے ممنوع فعل کا ارتکاب کیا ہے۔ (۲)تین روزے رکھے اور وہ یہ روزے مکہ میں بھی رکھ سکتا ہے اور کسی دوسری جگہ بھی اس کے رکھنے کا جواز ہے اور نمبر (۳)حج میں تحلل اول (پہلی مرتبہ حلال ہونے) سے پہلے جماع کر لینے کی صورت میں اس کے لیے ایک اونٹ ذبح کرنا واجب ہے، جسے وہاں ذبح کیا جائے، جہاں اس نے اس ممنوع فعل کا ارتکاب کیا ہے یا وہ مکہ میں ذبح کر کے اسے وہاں کے فقرا میں تقسیم کر دے یا اگر اس کو شکار کا بدلہ دینا ہے، تو وہ فدیہ اس شکار جیسا جانور ہوگا یا کھانا کھلانا ہوگا یا روزے رکھنے ہوں گے۔ روزے کسی بھی جگہ رکھے جا سکتے ہیں اور اگر کھانا کھلانا یا جانور ذبح کرنا ہے، تو اس کے لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ہَدْیًا بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ﴾ (المائدۃ: ۹۵) ’’یہ قربانی کعبہ پہنچائی جائے۔‘‘ لہٰذا اس کا حرم کے اندر ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلے میں وہ کسی کو اپنا وکیل بھی مقرر کر سکتا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کے باقی ماندہ اونٹ ذبح کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا وکیل مقرر فرمایا تھا۔[1]
Flag Counter