Maktaba Wahhabi

87 - 442
مستحسن امر نہیں ہے، الا یہ کہ علت وسبب بیان کرنا مقصود ہو کہ یہ لباس پہننا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ تھا، تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے کہ کوئی شخص نماز پڑھنے کے بعد یہ کہے کہ ’’میں نے ان شاء اللہ نماز پڑھ لی ہے‘‘ اگر اس کا مقصود فعل نماز ہے، تو یہاں ان شاء اللہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ نماز پڑھ چکا ہے اور اگر اس کا مقصود یہ ہے کہ نماز مقبول ہوگی تو پھر ان شاء اللہ کہنا صحیح ہے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں۔ کونی اور شرعی ارادے میں فرق سوال ۳۵: (اللہ تعالیٰ کے) ارادے کی کتنی قسمیں ہیں؟ جواب:ارادے کی دو قسمیں ہیں: (۱)ارادہ کونیہ۔ (۲) ارادہ شرعیہ۔ جو مشیت کے معنی میں ہو وہ ارادہ کونیہ ہے اور جو محبت کے معنی میں ہو وہ ارادہ شرعیہ ہے۔ ارادہ شرعیہ کی مثال ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ﴾ (النساء: ۲۷) ’’اور اللہ تو چاہتا ہے کہ تم پر توجہ دے۔‘‘ یہاں ﴿یُرِیْدُ﴾ ﴿یُحِبُّ﴾ کے معنی میں ہے مراد یہ ہے کہ ’’وہ پسند فرماتا ہے۔‘‘ دراصل یہاں پر(یرید) مشیت کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ اگر اس کے معنی یہ ہوتے (وَاللّٰہُ یَشَائُ اَنْ یَّتُوبَ عَلَیْکُمْ) ’’اللہ چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی کرے۔‘‘مرادیہ ہے کہ اگر اس کو مشیئت کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مشیئت کا تقاضہ ہے کہ وہ تمام بندوں پر مہربانی فرما ئے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ انسانوں کی اکثریت تو کافر ہیں، اسی لئے یہاں پر ﴿یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ﴾ کے معنی (یحب)کے لئے گئے ہیں یعنی کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ وہ تم پر مہربانی کرے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کسی چیز کو پسند فرمانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ چیز وقوع پذیر بھی ہو جائے گی، کیونکہ بسااوقات اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز وقوع پذیر نہ ہو۔ ارادہ کونیہ کی مثال حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنْ کَانَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ﴾ (ہود: ۳۴) ’’اگر اللہ یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کر دے۔‘‘ یہاں پر یرید (مشیئت) معنی کے معنی میں واردہواہیکیونکہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ وہ بندوں کو گمراہ کرے، لہٰذا اس جگہ یہ معنی صحیح نہیں ہوں گے کہ (انْ کَانَ اللّٰہُ یُحِبُّ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ) ’’اگر اللہ اس بات کو پسند فرمائے کہ تمہیں گمراہ کر دے‘‘ بلکہ آیت کریمہ کے اس مقطعہ کے معنی یہ ہوں گے کہ ’’اگر اللہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کر دے۔‘‘ اب رہی یہ بات کہ مراد کے وقوع پذیر ہونے کے اعتبار سے کونی اور شرعی ارادے میں کیا فرق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ارادہ کونیہ فرماتا ہے، یعنی کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ چیز فوراً پیدا ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّمَا اَمْرُہُ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ، ﴾ (یٰسٓ: ۸۲) ’’اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرماتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ جہاں تک شرعی ارادے کا تعلق ہے، تو اس کے مطابق کبھی مراد وقوع پذیر ہو جاتی ہے اور کبھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک چیز کا شرعاً ارادہ رکھتا ہے اور اسے پسند فرماتا ہے، لیکن وہ وقوع پذیر نہیں ہوتی کیونکہ محبوب چیز کبھی وقوع پذیر ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔
Flag Counter