Maktaba Wahhabi

78 - 442
اور اس سے ڈرے گا تو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا، ﴾ (الاحزاب: ۳۶) ’’اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ کر دیں تو وہ اس میں اپنا بھی کچھ حق اختیار محفوظ رکھیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ راہ راست سے بھٹک کر صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا، ﴾ (النساء: ۶۵) ’’تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں، تب تک مومن نہیں ہوں گے۔‘‘ ان آیات کریمہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تنازع کے وقت مومنوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے اور ان کے سامنے سر اطاعت خم کر دیتے ہیں نیزاس کے سوا ان کو کوئی اختیار نہیں۔ ایمان اسی سے مکمل ہوتا ہے بشرطیکہ وہ اس سے تنگ دل نہ ہوں بلکہ خوشی خوشی اس حکم کو تسلیم کر لیں اگراس کے سوا کوئی اور رستہ اختیار کیا گیا تو وہ اس آیت کریمہ کے موجب ہوگا: ﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا، ﴾ (النساء: ۱۱۵) ’’اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘ اس تمہید کے بعد جو شخص بھی علو باری تعالیٰ کے بارے میں غور کرے گا اور اسے کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف لوٹائے گا تواس کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ تمام وجوہ دلالت کے ساتھ کتاب وسنت کی صراحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی تمام مخلوق سے اوپر ہے، قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف عبارتوں میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے: ۱۔ نمبرایک اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے، مثلاً: ﴿اَمْ اَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُوْنَ کَیْفَ نَذِیرِ﴾(الملک: ۱۷) ’’کیا تم اس سے، جو آسمان میں ہے، نڈر ہو کہ وہ تم پر مٹی اور کنکریاں اڑاتی آندھی بھیج دے، سو تم عنقریب جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے؟‘‘ اور مریض کو دم کرنے والی دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے:
Flag Counter