Maktaba Wahhabi

426 - 442
لیے خوشبو لگایا کرتی تھی۔‘‘ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حلال ہونے کے معاً بعد طواف کرنا چاہیے اور طواف سے پہلے حجامت بنوا لی جائے کیونکہ جیسا کہ ہم نے قبل ازیں ذکر کیا ہے تحلل اول عید کے دن جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے اور سر کے بالوں کو منڈوانے یا کٹوانے سے حاصل ہوتا ہے۔ جماع اگر اس تحلل اول سے پہلے ہو تو اس کی وجہ سے وہ پانچ امور مرتب ہوں گے، جنہیں قبل ازیں ہم بیان کر چکے ہیں اور جو جماع تحلل اول کے بعد ہو تو اس کی وجہ سے گناہ لازم آئے گا، احرام فاسد ہو جائے گا، حج فاسد نہیں ہوگا اور فدیہ یا مسکینوں کو کھانا کھلانا یا روزے واجب ہوں گے، خواہ وہ مکہ میں رکھ لیے جائیں یا کسی دوسری جگہ، خواہ مسلسل رکھے جائیں یا الگ الگ، دونوں طرح جائز ہے۔ اگر یہ شخص جاہل ہو یعنی اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ حرام ہے، تو پھر اس پر کوئی چیز واجب نہیں، خواہ اس نے تحلل اول سے قبل جماع کیا ہو یا بعد میں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ: ۲۸۶) ’’اے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجئے۔‘‘ اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ وَ لٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ (الاحزاب: ۵) ’’اور جو بات تم سے غلطی کے ساتھ ہوگئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اگر کہا جائے کہ جب اس شخص کو یہ علم ہو کہ حالت احرام میں جماع حرام ہے لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس پر یہ احکام مرتب ہوں گے تو کیا اس صورت میں وہ معذور ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عذر نہیں ہے اس لئے کہ عذر کی صورت یہ ہے کہ انسان جاہل ہو اور اسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ یہ چیز حرام ہے اور اس چیز پر مرتب ہونے والے امور سے جاہل ہونا عذر نہیں ہے اگر کسی شادی شدہ شخص کو یہ علم ہو کہ زنا حرام ہے اور وہ بالغ و عاقل ہو اور اس کے حق میں احصان کی شرائط پوری ہوں، تو اسے رجم کرنا واجب ہوگا اور اگر وہ یہ کہے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ اس حد کی صورت رجم ہے اور اگر مجھے یہ معلوم ہوتا تو میں کبھی بھی زنا نہ کرتا تو ہم یہ کہیں گے کہ یہ عذر قبول نہیں ہے، اورتمہارے لیے رجم واجب ہے، خواہ تمہیں زنا کی سزا معلوم نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ طلب کیا، جس نے رمضان کے دنوں میں جماع کر لیا تھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کفارہ لازم قرار دیا تھا۔ [1]حالانکہ جماع کے وقت اسے یہ علم نہ تھا کہ اس کی پاداش میں اس پر کیا واجب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص معصیت کی جرأت کرے اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدوں کی بے حرمتی کرے تو اس پر اس معصیت کے اثرات و نتائج مرتب ہوں گے، خواہ معصیت کے ارتکاب کے وقت اسے ان اثرات و نتائج کا علم نہ بھی ہو۔
Flag Counter