Maktaba Wahhabi

30 - 442
’’اور تمہارے لیے کشتیاں اور چار پائے بنائے، جن پر تم سوار ہوتے ہو، تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو اور جب اس پر بیٹھ جاؤ، پھر اپنے پروردگار کے احسان کو یاد کرو اور کہو کہ وہ (ذات) پاک ہے جس نے اس کو ہمارے زیر فرمان کر دیا جبکہ ہم میں طاقت نہ تھی کہ اس کو بس میں کر لیتے اور ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کو مخلوق کے کسی چیز پر بیٹھنے کی طرح قرار دیا جا سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ شخص بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ ﴿اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ کے معنی (اسْتَوْلٰی عَلَی الْعَرشِ) یعنی عرش پر غالب ہونے (قبضہ پانے) کے ہیں، کیونکہ یہ تو کلمات کی وضع قطع کو اس کی اصل ہیئت اور معنی سے بدل دینا ہے اور یہ اس موقف کے بھی خلاف ہے جس پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کا اجماع تھا، نیز یہ بہت سے باطل لوازم کو بھی مستلزم ہے، لہٰذا کسی مومن کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ عزوجل کی نسبت ایسی بات منہ پر لائے۔ قرآن مجید بلا شک و شبہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ، ﴾ (الزخرف: ۳) ’’بلا شبہ ہم نے اس کو قرآن عربی بنایا ہے تاکہ تم سمجھو۔‘‘ عربی زبان میں (اسْتَویٰ عَلٰی کَذَا) کے معنی علو و استقرار کے ہیں اور یہی معنی لفظ استویٰ کے موافق ہیں تو ﴿اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے عرش پر قرار پکڑا، ٹھیک اس طرح جس طرح اس کی ذات پاک کے جلالت وعظمت کے شایان شان ہے، اگر ’’استواء‘‘ کی تفسیر ’’استیلاء‘‘ (غالب ہونا، جگہ پکڑنا) کے مفہوم ساتھ کی جائے، تو یہ کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دینے کے مترادف ہوگی کیونکہ اس تفسیر کے ذریعے سے درحقیقت اس معنی کی نفی ہوجائے گی جس پر قرآن کی زبان دلالت کرتی ہے اور وہ ہے علو و استقرار اور اس کی جگہ ایک دوسرے معنی کا اثبات قراپائے گا جو بالکل باطل ہے۔ تمام سلف صالح حضرات صحابہ و تابعین کرام کا اس معنی پر اجماع ہے اور ان سے اس تفسیر کے خلاف ایک حرف بھی منقول نہیں اور اصول بھی یہی ہے کہ جب کوئی لفظ قرآن وسنت میں آیا ہو اور سلف سے اس کی کوئی ایسی تفسیر وارد نہ ہوئی ہو جو اس کے ظاہر کے خلاف ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اس کے ظاہر پر اسے باقی رکھا ہے اور اس کا بات کا اعتقاد رکھا ہے جس پر یہ دلالت معنی کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کیا سلف سے ایسا کوئی صریح لفظ وارد ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ انہوں نے ’’اِسْتَویٰ‘‘ کی تفسیر ’’علا‘‘ سے کی ہے؟ ہم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ ہاں یہ سلف سے وارد ہے اور اگر بالفرض ان سے صراحت کے ساتھ یہ وارد نہ بھی ہو تو اصول کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم وسنت نبویہ میں جو لفظ استعمال ہوا ہو، اس کے وہی معنی ہوں گے جو عربی زبان کے تقاضے کے مطابق ہوں اور اس اصول کے مطابق سلف کے نزدیک بھی اس کے وہی معنی ہوں گے جن کا ثبوت عربی زبان کے تقاضہ کے مطابق ہو۔ ’’استواء‘‘ کی ’’استیلاء‘‘ کے ساتھ تفسیر سے جو باطل باتیں لازم آتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں: ٭ اس تعبیر سے یہ بات مترشح ہوکر سامنے آتی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾
Flag Counter