Maktaba Wahhabi

209 - 442
وضو کیا اور مسح کیا تو یہ شخص اگلے دن پانچ بجے تک مسح کر سکتا ہے اور اگر اس نے دوسرے دن پونے پانچ بجے مسح کیا اور پھر اسی وضو کے ساتھ اس نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں تو اس نے اس مدت میں پہلے دن نماز ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اور دوسرے دن کی فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں اور اس طرح اس نے گویا نو نمازیں مسح کے ساتھ ادا کر لیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں کی تعداد کا اعتبار نہیں، جیسا کہ بہت سے عام لوگ سمجھتے ہیں کہ مسح کے ساتھ پانچ فرض نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں۔ یہ بات بے اصل ہے۔ کیونکہ شریعت نے مقیم کے لیے ایک دن رات کا وقت مقرر کیا ہے اور اس وقت کی ابتدا پہلے مسح سے ہوتی ہے اور مذکورہ مثال سے آپ نے معلوم کر لیا کہ اس شخص نے کتنی نمازیں مسح کے ساتھ ادا کی ہیں۔ اس مثال سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ مدت پوری ہونے کے بعد مسح نہیں کر سکتا، کیونکہ اگر اس نے مدت پوری ہونے کے بعد مسح کیا تو وہ باطل ہوگا، اس سے اسے طہارت حاصل نہیں ہوگی اور اگر اس نے مدت تمام ہونے سے پہلے مسح کیا اور پھر مدت تمام ہونے کے بعد تک اس کی طہارت باقی رہی تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا بلکہ اس کی طہارت باقی رہے گی حتیٰ کہ وضو توٹ جائے کیونکہ اس قول کی کوئی دلیل نہیں کہ مدت پوری ہونے کے ساتھ ہی اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ مدت پوری ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے پورا ہونے کے بعد اب مسح نہیں کیا جا سکتا، اس کے یہ معنی نہیں کہ مدت پوری ہونے کے بعد اس کی طہارت بھی باقی نہیں رہی کیونکہ وقت کا تعین مسح کے لیے ہے، طہارت کے لیے نہیں، لہٰذا مدت پوری ہونے کے ساتھ طہارت ختم ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں۔ ہم نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اس شخص نے صحیح شرعی دلیل کے مطابق صحیح وضو کیا تھا، لہٰذا کسی شرعی دلیل کے بغیر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے اور اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ مدت پوری ہونے کے ساتھ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ لہٰذا اس کی طہارت باقی رہے گی حتیٰ کہ کتاب وسنت یا اجماع کی روشنی میں وضو ٹوٹ جانے کے اسباب میں سے کوئی سبب پایا جائے۔ مسافر تین دن راتیں یعنی بہتر گھنٹے تک مسح کر سکتا ہے، اس مدت کا آغاز پہلی بار مسح سے ہوگا، اسی لیے فقہائے حنابلہj نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس وقت موزے پہنے جب وہ اپنے شہر میں مقیم ہو اور پھر اس شہر میں وہ بے وضو ہو جائے اور پھر وہ سفر شروع کر دے اور سفر شروع کرنے کے بعد مسح کرے تو اس حالت میں وہ مسافر کی مدت مسح کو پورا کرے۔ یہ قول ضعیف ہے کہ مدت کی ابتدا اس وقت ہوگی، جب موزے پہننے کے بعد وہ پہلی دفعہ سے بے وضو ہوا۔ موزے پر مسح کو باطل کرنے والی چیز مدت کا ختم ہونا اور موزے کا اتار دینا ہے، جب موزے اتار دئیے جائیں تو مسح باطل ہو جاتا ہے، لیکن طہارت باقی رہتی ہے۔ اس بات کی دلیل کہ موزہ اتارنے سے مسح باطل ہو جاتا ہے، حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے: ((أمرناَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اَنْ لَّا نَنْزِعَ خِفَافَنَا)) (سنن النسائی، الطہارۃ، باب التوقیت فی المسح، ح: ۱۲۶، ۱۲۷، وجامع الترمذی، الطہارۃ، باب المسح علی الخفین للمسافر والمقیم، ح:۹۶۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم اپنے موزے نہ اتاریں۔‘‘ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ موزہ اتارنے سے مسح باطل ہو جاتا ہے، یعنی جب انسان مسح کرنے کے بعداپنے موزے کو
Flag Counter